ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
کے دن تو چلے گئے، اب منہ پِٹاؤ، جوتے کھاؤ، رُسوائی الگ ہوئی، بدنامی الگ ہوئی، لہٰذا کسی کا سولہ سالہ حسن مت دیکھو، نظر بچاؤ اور پھر سوچو کہ یہ لڑکی بڈھی ہونے والی ہے، اس کی چھاتیاں ایک ایک فٹ لٹک جائیں گی، اس وقت یاد کرو گے کہ جوانی میں تو یہ مثلِ انار تھیں، سارا عشق ناک کے راستہ نکل جائے گا۔ اسی طرح جس لڑکے پر آج مررہے ہو، بڈھا ہونے کے بعد اس کو دیکھ کر اس گدھے کی طرح بھاگو گے جو شیر کو دیکھ کر بھاگتا ہے ؎ میر کا معشوق جب بڈھا ہوا بھاگ نکلے میر بڈھے حسن سے اس لیے یہ شعر مجھے بہت پسند ہے ؎ عارف غمِ جاناں کی توجہ کے تصدق ٹھکرادیا وہ غم جو غم جاوداں نہ تھا یعنی غمِ جاناں کی توجہ کے میں قربان جاؤں،ا س اللہ پر فدا ہوجاؤں جو لازوال حسن رکھتا ہے، کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِیْ شَأْنٍ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ یوم کے معنیٰ یہاں دن کے نہیں بلکہ وقت کے ہیں اَیْ فِیْ کُلِّ وَقْتٍ مِّنَ الْاَوْقَاتِ، وَفِیْ کُلِّ لَمْحَۃٍ مِّنَ اللَّمْحَاتِ ،وَفِیْ کُلِّ لَحْظَۃٍ مِّنَ اللَّحَظَاتِ ہُوَ فِیْ شَأْنٍ؎ یعنی ہر وقت، ہر لمحہ، ہر لحظہ اس کی ایک نئی شان ہے اور معشوقانِ مجازی کی شان ہر لمحہ، ہر لحظہ روبہ زوال ہے۔ اس لیے عاشقانِ مجاز بالکل احمق اور بے وقوف نظر آتے ہیں۔ اگر اس میں کسی کو شبہ ہو تو ہم سے کہے ہم اس کی حماقت کو ثابت کردیں گے۔ کیسے؟ بڑھاپا ہر شخص پر آئے گا یا نہیں؟ تو جب معشوق بُڈھا اور معشوقہ بُڈھی ہوجائے گی تو اس کے ساتھ یہ جوش و خروش، یہ غزل خوانی، یہ قصیدہ سرائی رہے گی؟ بڈھا، بڈھی دونوں کی گردن ہل رہی ہے، دونوں معانقہ کر کے دِکھائیں، ایک کا اثبات ہوگا دوسرے کی نفی ہوگی۔ آہ! بڈّھے اور بڈھی معانقہ بھی نہیں کرسکتے۔ یہ بات میں خون کے آنسو بہا کر کہوں تو بھی حق ادا نہیں ہوسکتا۔ واللہ! دنیا فانی ہے، ہرگز اس قابل نہیں کہ اس سے دل ------------------------------