ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
اسلام وراثت میں دے دیا، جنت کا ٹکٹ مفت میں عطا فرمادیا۔ موروثی ایمان کی اس ایک ہی نعمت کا شکر ہم لوگ ادا نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم میرے شکر گزار بندے بننا چاہتے ہو تو تقویٰ اختیار کرو، تب تم حقیقی شکر گزار بن جاؤ گے۔ وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللہُ بِبَدْرٍ بدر میں اللہ نے تمہاری مدد کی وَّاَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ اور تم نہایت ہی بے کس تھے۔ اَذِلَّۃٌ کے معنیٰ بے کس، بے سروسامان کے ہیں، ذلیل مراد نہیں ہے، یعنی بدر میں تم نے اپنی قلت، بے مائیگی اور بے سروسامانی کا مشاہدہ کیا پھر ہم نے تمہاری مدد کی فَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ؎ پس تم تقویٰ اختیار کرو تاکہ حقیقتاًشکر گزار بن جاؤ۔ معلوم ہوا کہ جو نافرمانی میں مبتلا ہے وہ شکر گزار ہو ہی نہیں سکتا اور شکر گزار کیسے بنو گے؟ وَ اتَّقُوْ اللہَاللہ سے ڈر کے رہو، یعنی گناہ سے بچو، لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔ معلوم ہوا کہ شکر گزار بننے کے لیے تمام گناہوں سے بچنا ضروری ہے اور گناہ منکر ہے اور منکر کے معنیٰ ہیں اجنبی اور اجنبی سے سب گھبراتے ہیں۔ کسی مال دار آدمی کے پاس کوئی اجنبی آکر بیٹھ جائے تو وہ ڈر جائے گا کہ جیب کترا معلوم ہوتا ہے۔ گناہ کو اسی لیے منکر فرمایا کیوں کہ اس سے آدمی کی طبیعت مانوس نہیں، گناہ انسانی فطرت کے لیے اجنبی ہے۔ اسی لیے جو پہلی دفعہ گناہ کرتا ہے پسینہ پسینہ ہوجاتا ہے، پھر دوسری، تیسری، چوتھی، پانچویں دفعہ میں بے حیا ہوتا چلا جاتا ہے اگرچہ شریف گھرانے کا بچہ ہو، لیکن پہلے گناہ پر شرم سے پسینہ آجاتا ہے ؎ نہ تم آئے نہ ہم آئے کہیں سے پسینہ پونچھئے اپنی جبیں سے اس شعر میں شاعر نے پہلے گناہ کا نقشہ کھینچا ہے۔ یہی دلیل ہے کہ یہ منکر ہے اور پہلی نیکی سے پریشانی نہیں ہوتی کیوں کہ وہ معروف ہے، جان پہچان کی چیز ہے، فطرت اس سے مانوس ہے۔ نافرمانی انسانی فطرت کے خلاف ہے، اس لیے پہلے گناہ پر طبیعت پریشان ہوتی ہے لیکن پھر مسلسل ارتکاب سے دل مردہ ہوجاتا ہے پھر نافرمانی اس کے ------------------------------