ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
کوئی با دشاہ سے ایسی بات کر سکتا ہے، اس طرح بادشاہ کو کوئی نصیحت و تبلیغ کر سکتا ہے کہ اپنا کان قریب لائیے۔ ہے کسی کی ہمت جو با دشاہ سے اس طرح خطاب کرے لیکن ہاں جو بادشاہت کو چھوڑ سکتا ہے، جس کے دل میں بادشاہت کی کوئی حقیقت نہ ہو، جو بادشاہت کو ترک کرنے کا جذبہ رکھتا ہو اُسی کی یہ ہمت ہوسکتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ واقعہ بیان کرنا بھی مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ ہی کا کام ہے کیوں کہ وہ با دشاہ کے نواسے تھے۔ کوئی عام آدمی تو اس کو بیان بھی نہیں کرسکتا۔ غرض ایسے رعب سے اس نے کہاکہ با دشاہ کانپنے لگا، سب کو ہٹا دیا اور اپنا کان اس با دشاہ کے منہ کے قریب کر دیا۔ مولانا رو می فرماتے ہیں کہ در د بھرے دل سے نہ جانے اس کے کان میں کیا کہہ دیا اور اس کے دل میں اﷲ کی محبت کا کیا مزہ گھول دیا کہ وہ بادشاہ بھی سلطنت چھوڑنے کو تیار ہوگیا اور اس نے کہا کہ میں بھی آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔ چلیے ہم دونوں کسی تیسرے ملک میں چلیں جہاں لوگ ہمیں نہ پہچانیں، وہاں مزدوری کریں گے اور اﷲ کی عبادت کریں گے، دونوں اپنا اپنا ملک چھوڑ کر نکل گئے اور اﷲ کی عبادت میں مشغول ہوگئے۔ یہی راز حضرت سلطان ابراہیم ابن ادہم پر کھل گیا تھا اور ان پر اﷲ تعالیٰ کے عشق و محبت کی وہ کیفیت طاری ہوئی کہ انہوں نے بادشاہت چھوڑ کر فقیری اختیار کی۔ کتنے بادشاہ مرگئے جنہیں آج کوئی پوچھتا بھی نہیں لیکن اس بادشاہ تارکِ سلطنت حضرت سلطان ابراہیم بن ادہم کا نام تفسیر روح المعانی کے پانچویں پارے کی تفسیر میں آرہا ہے ؎ اب مرا نام بھی آئے گا ترے نام کے ساتھ مولانا رو می نے فرمایا کہ اﷲ کے نام میں وہ مزہ ہے کہ کتنے سلاطین گھر سے بے گھر ہو گئے اور اﷲ کے راستہ میں سلطنتیں قربان کر دیں لیکن کوئی ایک مثال ایسی نہیں ملتی کہ کسی ولی اﷲ نے اپنی ولایت کے بدلہ میں سلطنت قبول کی ہو۔ اس پر احقر کے اشعار ہیں ؎ بہت سے سلا طیں ہوئے گھر سے بے گھر مزہ ان کو آیا جو اس سنگِ در پر دِلوں میں جب ان کے کیا عشق نے گھر تو پایا فقیری کو شاہی سے بہتر