ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
آدمی شیروانی پہنے بٹن لگائے ہوئے کھڑے تھے۔ وہ بھی پٹھان کے چکر میں آگئے اور دو روپے کی پڑیا لے لی۔ جب مجمع ختم ہوگیا تو لکھنؤ والے صاحب کو خیال آیا کہ میں نے اس کا طریقۂ استعمال تو پوچھا ہی نہیں، وہ دوڑے اور پٹھان کو پکڑ کر پوچھا کہ اس کی ترکیبِ استعمال تو بتادو کہ کیا ہے ۔ اس نے کہا کہ تم اتنا بھی نہیں جانتا ، عجب بے وقوف آدمی ہو۔ ارے مچھر کو پکڑو، پھر اس کا منہ کھولو، ایسا مافک (موافق) کھولو۔ جب منہ کھول دے تو پڑیا اس کے منہ میں ڈال دو۔ پھر بھی اگر نہ مرے تو ہمارے پاس لاؤ، ہم مارے گا، ہم ذمہ لیتا ہے ۔ ایسے ہی حرام کا دو روپیہ ہم تھوڑی لیتا ہے ۔ تو منہ پر تعریف کرنا مطلق منع نہیں ہے ۔اس کا حکم بہت وسیع ہے لیکن لوگ سمجھتے نہیں ۔ تنگ نظر ، تنگ دل، تنگ عقل بے وقوفی کی بات کرتے ہیں حالاں کہ بڑے بڑے اکابر نے اپنے چھوٹوں کی تعریف کی ہے ۔ خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کتنے صحابہ کی تعریف فرمائی۔ایک دفعہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے فرمایا جو سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے رشتہ کے ماموں تھے کہ سعد میرے ماموں ہیں ، لائے کوئی میرے ماموں جیسا اپنا ماموں! اور فرمایا کہ سعد یہ تیر لواور اس کافر کو مارو جس نے مسلمانوں کا دل جلا رکھا ہے ۔ انہوں نے نشانہ لیا تو وہ کافر دھڑام سے گرپڑا اور اس کی لنگی کھل گئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے حَتّٰی بَدَتْ نَوَاجِذُہٗ یہاں تک کہ آپ کی داڑھیں کھل گئیں اور حضرت سعد بن ابی وقاص کی آپ نے تعریف فرمائی کہ میرے سعد کا تیر خطا نہیں کرتا اور دعا فرمائی: اَللّٰھُمَّ سَدِّدْ سَھْمَہٗ وَاَجِبْ دَعْوَتَہٗ ؎ یا اللہ! اس کا نشانہ صحیح فرما اور اس کی دعا قبول فرما چناں چہ صحابہ اس وجہ سے ان کی تعریف کرتے تھے اور ان سے دعائیں کراتے تھے کیوں کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کے مستجابُ الدعوات ہونے کی دعا فرمائی۔ اسی طرح کافروں کے مقابلہ میں حضرت حسّان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اشعار سنائے تو آپ نے فرمایا ماشاء اللہ! اور دُعا دی : ------------------------------