ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
اگر کسی کمہار کے برتن کی تعریف کی جائے تو اصل میں وہ کمہار کی تعریف ہے ۔ مٹی کے برتن بنانے والے کو کمہار کہتے ہیں۔ اگر کوئی برتن پھولنے لگے کہ واہ میری تعریف کی جارہی ہے تو یہ اس کی حماقت ہے۔ اسی لیے جو خام اور کچے لوگ ہیں،غیر عارف ہیں وہ اپنی تعریف سے پھول جاتے ہیں۔ اگر اندیشہ ہو کہ گدھے کی طرح پھول جائیں گے تو ایسوں کے سامنے ان کی تعریف نہ کرے لیکن تعریف مطلق منع نہیں ہے۔اسی لیے حدیث پاک میں ہے کہ اِذَا مُدِحَ الْمُؤْمِنُ فِیْ وَجْھِہٖ رَبَا الْاِیْمَانُ فِیْ قَلْبِہِ کہ جب مومن کی تعریف کی جاتی ہے اور مومن سے مراد مومنِ کامل ہے کیوں کہ اَلْمُطْلَقُ اِذَا اُطْلِقَ یُرَادُ بِہِ الْفَرْدُ الْکَامِلُ جب کوئی چیز مطلق بولی جائے تو مراد اس کا فردِ کامل ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ مومنِ کامل کو تعریف سے ضرر نہیں ہوتا بلکہ فائدہ ہوتا ہے اور اس کا ایمان بڑھ جاتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ یہ میری تعریف نہیں ہورہی ہے اللہ تعالیٰ کی تعریف ہورہی ہے جس نے مجھے بنایا ہے۔ اس کو اپنی حقارت اور اللہ کی عظمت کا استحضار بڑھ جاتا ہے۔ اگر تعریف مطلق منع ہوتی تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نہ فرماتے کہ تعریف سے مومن کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے ۔ بڑے بڑے اکابر نے اپنے لائق شاگرد کی جلسوں میں تعریف کی ہے کہ ہمارا یہ شاگرد ماشاء اللہ بہترین طالبِ علم ہے، بہت لائق ہے، بڑا ذہین ہے ، بہت متقی ہے وغیرہ اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جب تمہارے منہ پر کوئی تعریف کرے تو اس کے منہ میں مٹی ڈال دو۔ تو کیا آپ نے کبھی دیکھا کہ جب استاد نے کسی شاگرد کی تعریف کی تو وہ شاگرد مٹی تلاش کرنے لگا ہو اور پڑیا میں مٹی لا کر استاد سے کہا ہوکہ استاد جی منہ کھولو، میں آپ کے منہ میں مٹی ڈالوں گا۔ منہ کھولنے پر ایک لطیفہ یاد آگیا۔ کراچی میں ایک علاقہ ہے لالو کھیت۔ وہاں ایک پٹھان نے دیکھا کہ ایک آدمی مچھر کی دوا بیچ رہا تھا اور ایک گھنٹہ میں سو روپے کمالیے۔ اس نے سوچا کہ ہم دن بھر بلاک ڈھوتے ہیں ، خون پسینہ بہاتے ہیں تو سارے دن میں دس روپے ملتے ہیں لہٰذا چلو ہم بھی قسمت آزمالیں۔ اس نے راکھ کی پچاس پڑیاں بنا کر تھیلے میں رکھ لیں اور کہا کہ یہ پڑیا مچھروں کی دوا ہے ، ایک مچھر نہیں رہ سکتا۔ دو روپے کی ایک پڑیا ہے مچھروں سے نجات دلانے والی۔ وہیں ایک لکھنؤ کے