ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
تو سنت اور حرام کا جب تقابل ہوگا تو حرام سے بچا جائے گا۔ اور گالوں پر داڑھی کے بال کہاں تک بنانا چاہیے؟ بعض لوگ گال کو فارغ البال کرلیتے ہیں اور صرف ایک لکیر رکھ لیتے ہیں، یہ صحیح نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اوپری جبڑے کے بال بناسکتاہے نیچے کے جبڑے کو نہیں بناسکتا، نیچے کا جبڑا داڑھی میں داخل ہے۔ منہ کھول کر نیچے کے دانت پر انگلی رکھ لے، بیچ میں جو گڈھا ہے وہ گال ہے اس کے بال بنا سکتا ہے۔ اب دو حکم اور ہیں آنکھوں کا اور دل کا۔نظر کی حفاظت کیجیے، نامحرم سے نظربچائیں، اسی طرح بے ریش لڑکوں کو بھی نہ دیکھیں چاہے حسین ہو یا غیرحسین ہو کیوں کہ جب چوہے کو بِلّیاں دوڑاتی ہیں تو چوہا بل کے حسن کی طرف نہیں دیکھتا کہ بل سنگِ مرمر کا ہے یا نہیں، وہ دیکھتا ہے کہ بل ہونا چاہیے، بلیوں کی میاؤں سے گھبراکر اس میں گھس جاتاہے۔ میر صاحب کے لیے میرا شعر ہے ؎ بے کسی اے میراس چوہے کی دیکھنا چاہیے بلیوں کی میاؤں ہو اور پاس کوئی بل نہ ہو میرے مدرسہ میں ایک الجزائری تھا، وہ عربی بولتاتھا، اردو نہیں سمجھتا تھا۔ میں نے عربی میں اس کو یہ شعر سمجھایا کہ بلیوں کی میاؤں ہوتی ہے تو چوہا کس طرح بھاگتاہے۔ وہ بہت ہنسا اور اس نے عربی میں کہا کہ چوہا گھبرا کر بھاگتاہے مگر مارے گھبراہٹ کے اُلٹ جاتاہے، پھر سیدھا ہوتاہے، پھر اُلٹ جاتاہے۔ تودوحکم بیان ہوگئے۔اب دوحکم اور ہیں،آنکھ کی حفاظت اور دل کی حفاظت۔آنکھوں کو حسینوں سے بچاؤ، نہ محبت سے دیکھو، نہ غصہ سے دیکھو۔ ایک صاحب آنکھیں لال کیے ایئرہوسٹس پر غصہ کررہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ میں تمہارے آفیسر سے شکایت کروں گا کہ یہ سروس اچھی نہیں کرتی، چائے میں دیر کردی اور چینی بھی نہیں دی وغیرہ وغیرہ، تو میں نے ان کی آنکھ کو دیکھا اور اپنے تجربہ کی بنا پرسمجھا کہ غصہ کی حالت میں بھی نفس اپنا کام کرتاہے، محبت سے تو مزہ لیتاہی ہے لیکن غصہ میں بھی مزہ لیتاہے، اس لیے عورتوں کو نہ غصہ سے دیکھنا چاہیے اور نہ محبت سے دیکھنا چاہیے۔ اسی طرح لڑکوں کو خصوصاً جن لڑکوں میں حسن ہو اگر چہ ان کے کچھ بال داڑھی