ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
حسینوں سے مستغنی ہے۔ اس کے یہ معنیٰ نہیں ہیں کہ اس کو حسینوں کی طرف میلان نہیں ہوتا۔ اﷲ والوں کا مزاج بوجہ تقویٰ زیادہ لطیف ہو تا ہے، اُن کو حسن کا اِدراک عام آدمیوں سے زیادہ ہو تا ہے لیکن وہ اپنی حرام تمناؤں کو پھانسی پر چڑھا دیتے ہیں اور نفس سے کہہ دیتے ہیں کہ ہرگز اس کو نہیں دیکھوں گا، اگر تو دیکھے گا تو میں تجھ کو دیکھ لوں گا یعنی کڑی سزا دوں گا ۔ اگرچہ دیکھنے کو ان کا بھی دل چاہتا ہے لیکن وہ اپنے دل کا خون کرتے ہیں کیوں کہ اسی خونِ آرزو سے وہ اﷲ کو پاتے ہیں۔ جس شخص نے اپنی حرام تمنا کو پھانسی پر چڑھا دیا تو میرے ضلع کا شاعر دانش پرتاب گڑھی کہتا ہے ؎ آؤ دیارِ دار سے ہو کر گزر چلیں سنتے ہیں اِس طرف سے مسافت رہے گی کم یہ شار ٹ کٹ راستہ ہے، جو برسوں میں اﷲ تک نہ پہنچے وہ ایک نظر بچانے میں پہنچ جائے گا، اسی لیے شیطان پوری کو شش کرتا ہے کہ سالک نظر اٹھا کر دیکھ لے کیوں کہ جانتا ہے کہ نظر بچانے سے یہ بہت جلد اﷲ کا مقرب ہو جائے گا، شیطان پوری کوشش کرتا ہے کہ یہ حلوۂ ایمانی حاصل نہ کر پائے کیوں کہ اگر یہ حلوۂ ایمانی پا گیا تو میری دوکان لذتِ عریانی کی فیل ہو جائے گی، اگرحلوۂ ایمانی کا مزہ اس کو مل گیا تویہ میرے حلوۂ شیطانی کو دیکھے گا بھی نہیں۔ اسی لیے حدیثِ پاک کی عبارت سمجھو اے اہلِ علم حضراتمَنْ تَرَکَھَا مَخَافَتِیْ جس نے میرے خوف سے نظر بچائی، امام ہے تو مقتدیوں کے خو ف سے نہیں یا کمیٹی کے ممبروں کے خوف سے نہیں، شیخ ہے تو مریدین کے خوف سے نہیں کہ اگر عورتوں کو دیکھوں گا تو میری پیری مریدی نہیں چلے گی غرض کوئی اور وجہ نہ ہو سوائے خوفِ خدا کے بس آسمان والے پر اس کی نظر ہو، آسمان والے سے اس کو محبت ہو، آ سمان والے سے اسے نسبت ہو، صرف اﷲ کا خوف ہو کہ اے اﷲ! کوئی مجھے نہیں دیکھ رہا ہے مگر تو مجھے دیکھ رہا ہے، تیری وجہ سے میں نظر کو نیچی رکھتا ہوں اور اس حسین کو نہیں دیکھتا تو یَجِدُ حَلَاوَۃَ الْاِیْمَانِ فِیْ قَلْبِہٖ؎ توحلوۂ ایمانی وہ ------------------------------