ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
اے اﷲ مجھے حق کو حق دِکھا اور اس کا اتبا ع نصیب فرما اور باطل کو باطل دِکھا اور اس سے اجتناب نصیب فرما۔ میرے دل میں خیال آیا کہ یہاں وَارْزُقْنَا کیوں فرمایا وَفِّقْنَا کیوں نہیں فرمایا۔ وَارْزُقْنَاکے معنیٰ ہیں کہ ہمیں رزق دیجیے یعنی اتبا عِ حق اور اجتناب عنِ الباطل کا رزق ہم کو عطا فرمائیے۔ اس حدیث کا مطلب دوسری حدیث سے اﷲ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: اِنَّ نَفْسًا لَنْ تَمُوْتَ حَتّٰی تَسْتَکْمِلَ رِزْقَھَا ؎ کسی نفس کو ہر گز مو ت نہیں آ سکتی جب تک کہ وہ اپنا رزق مکمل نہ کر لے تو اتباعِ حق اور اجتنابِ باطل کی تو فیق سے تعبیر فرما کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اُمت پر رحم فرمایا اور امت کے لیے یہ نعمت مانگ لی کہ جس طرح رزقِ ظاہری مکمل کیے بغیر کسی نفس کو موت نہیں آ سکتی اسی طرح میری امت میں کسی کو مرنے نہ دیجیے جب تک وہ اپنا اتبا عِ حق اور اجتناب عنِ الباطل کا رزق مکمل حاصل نہ کر لے یعنی جب تک امت حق کی پوری تابع دار نہ ہو جائے اور باطل اور معصیت اور گناہوں کے اعمال سے اس کو طہارتِ کاملہ نصیب نہ ہو جائے اس وقت تک امت کے کسی فرد کو موت نہ آئے ۔ مطلب یہ کہ جس طرح استکمالِ رزقِ ظاہری کے بغیر کسی ذی روح کو موت نہیں آ سکتی اسی طرح استکمالِ رزقِ باطنی یعنی اتباعِ حق اور اجتناب عنِ الباطل کی تکمیل کے بغیر اے اﷲ! ہم میں سے کسی کو موت نہ دے ۔ جب یہ رزقِ با طنی ہم مکمل طور پر حاصل کر لیں تب موت آئے۔ اور دوسری حدیث میں ہے کہ رزق اپنے مر زو ق کو تلا ش کر تا ہے: اِنَّ الرِّزْقَ لَیَطْلُبُ الْعَبْدَ کَمَا یَطْلُبُہٗ اَجَلُہٗ ؎ رزق بندہ کو ایسے تلا ش کر تا ہے جیسے اس کی مو ت اس کو تلاش کر تی ہے۔ وَارْزُقْنَا فرما کرحضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ بھی مانگ لیا کہ جس طرح رزق ظاہری ہمیں ------------------------------