ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
حفاظت پر حلاوتِ ایمانی، اپنے قرب کی مٹھاس عطا فرماتے ہیں۔ نظر بچانے سے جو دل میں خون بہا تو اس کے خوں بہا میں اﷲ نے اپنی ذات کو پیش کیا ہے۔ ایک آدمی کسی کو قتل کردے تو اس قتل کے بدلہ میں قاتل کو قتل کردیا جاتا ہے یا وارثوں کی مرضی سے خوں بہا بصورتِ رقم دیا جاتا ہے لیکن نظر کی حفاظت میں جو دل کا خون ہوا اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں اس کا خوں بہا میں ہوں۔ حلاوتِ ایمانی کیا ہے؟ حلاوتِ ایمانی سے مراد اﷲ کی ذات ہے اَبْدَلْتُہٗ اِیْمَانًا یَجِدُ حَلَاوَتَہٗ فِیْ قَلْبِہٖ حلاوتِ ایمانی کا اور کیا ترجمہ آپ کریں گے سوائے اس کے کہ اﷲ خود مل جاتا ہے۔ اس مجاہدہ سے اس کے دل کا عالم بدل جاتا ہے۔ عالمِ بُعد سے وہ عالمِ قرب میں آجاتا ہے۔ دل جسم میں بادشاہ ہے اس لیے اس کی محنت پر اس کا معاوضہ اور مزدوری بھی زیادہ ہونی چاہیے۔ اسی لیے حلاوتِ ایمانی کا وعدہ ہے اور وعدہ بھی ایسا ہے یَجِدُ حَلَاوَتَہٗ فِیْ قَلْبِہٖیعنی اپنے قلب میں وہ پالے گا حلاوت کو یعنی وہ واجد ہوجائے گا اور حلاوتِ ایمانی موجود ہوجائے گی۔ اس پر عمل کرکے تو دیکھو۔ خالی سننے سے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ سننے کی بات نہیں ہے، عمل کرنے کی بات ہے مثلاً ایئر ہوسٹس سے نگاہ بچالو تو پتا چلے گا کہ کیا تکلیف ہوئی اور کیا ملا۔ پھر مولانا منصورالحق صاحب سے اشعار پڑھنے کے لیے فرمایا۔ انہوں نے یہ غزل پڑھی جو ہوائی جہاز میں انہوں نے کہی تھی اور جب انہوں نے یہ شعر پڑھا ؎ دے دے دیارِ مرشدِ محبوب کا پتا بادِ صبا تو اڑتی ہے لے کر کدھر مجھے حضرت والا نے یہ شعر پسند فرمایا اور تمام سامعین نے بھی پسند کیااور مولانا کو مختلف لوگوں نے ہدایہ دیے تو حضرت نے فرمایا کہ پہلے زمانہ میں بڑے بڑے اولیاء اللہ کسی شعر سے خوش ہو جاتے تھے تو شاعر کو لوگ نذرانہ دیتے تھے آج ماشاء اللہ! بزرگوں کی ایک سنت زندہ ہو گئی، اولیاء اللہ کا ایک طریقہ زندہ ہوا۔ اس کے بعد فرمایا کہ بس اب چلنا چاہیے اور دعا فرمائی کہ اے اﷲ ہم سب کو غضِّ بَصَر کی ہمت دے دے اور مجھے اور میرے دوستوں کو اپنی ذاتِ پاک پر جان فدا کرنے کی توفیق عطا فرمادے۔ وَاٰخِرُدَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ