ارشادات درد دل |
ہم نوٹ : |
|
تھے؟ اپنے زعم میں برکت کے لیے اور بتوں کی کھوپڑیوں پر شہد لگا دیتے تھے لیکن مکھیاں سارا شہد چاٹ جاتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم ایسے بتوں کو پوجتے ہو جو اپنا مال مکھی سے نہیں چھڑا سکتے۔ مکھیاں ان کی کھوپڑیوں سے شہد چاٹ کر بھاگ جاتی ہیں اور تمہارے معبود ان کو پکڑ نہیں سکتے ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الۡمَطۡلُوۡبُ؎ تم ایسے کمزور اور لچر بتوں کی پرستش کرتے ہو جو اپنی منڈی ہوئی کھوپڑیوں کے شہد کو مکھیوں سے نہ چھڑا سکیں۔ جس طرح کعبہ سے بتوں کو نبی نے نکالا اسی طرح ہمارے دلوں میں جو غیر اللہ کے چلتے پھرتے بت چھپے ہوئے ہیں، ہم نے اپنی جن خواہشوں کو خدا بنا رکھا ہے، اللہ والا ان کو نکالتا ہے اس لیے اللہ والوں کو خصوصاً اپنے شیخ کو خوش رکھنا اس راہ میں ضروری ہے۔ اللہ والوں کو اذیت دینا بہت زیادہ محرومی کی بات ہے۔ اللہ والوں کو اذیت دینے والا سخت خطرہ میں ہے کہ اللہ کا اگر غضب نازل ہوگیا تو دل سے کلمہ ہی نکل جائے گا اس لیے جس کو بار بار کہا جائے کہ یہ کام نہ کرو پھر وہی کرنا کمینہ پن اور کم بختی کی بات ہے۔ کوشش کرو کہ شیخ جو کام دے اس کو پورا کرو مثلاً کسی سے کہے کہ صبح و شام یہ ہدایت نامہ پڑھا کرو، اس میں کوتاہی کرنا مرید کی نالائقی اور کمینہ پن ہوگا، اس لیے پابندی سے اس کا اہتمام کرو۔ یہ سمجھ لو کہ اللہ والوں کو دُکھ دینا چاہے غیر شعوری طور پر ہو، غیر ارادی طور پر ہو بلکہ چاہے اخلاص سے ہو بہت مضر ہے ۔ دیکھو جن لوگوں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دو اپلائی تھی جس کو آپ نے منع فرمایا تھا لیکن آپ بے ہوش ہوگئے تو بعض صحابہ نے غلبۂمحبت میں وہ دوا پلادی، اس سے آپ کو ناگواری ہوئی، جب آپ کو ہوش آگیا تو آپ نے فرمایا کہ جن لوگوں نے مجھے کڑوی دوا پلائی ہے ان سب کو وہی پلادو ورنہ عذاب آجائے گا، مجھے کیوں اذیت دی۔ بتائیے دوا پلانے میں اخلاص تھا یا نہیں؟ سو فیصد اخلاص تھا، صحابہ نے اخلاص ہی سے دوا پلائی تھی لیکن اﷲ تعالیٰ کو اپنے مقبولین کی طبعی تکلیف پر اخلاص بھی پسند نہیں، اپنے مقبول بندوں کی طبعی تکلیف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اخلاص کو بھی پسند نہیں کیا چناں چہ مقبولین کی طبیعت کو خوش رکھنااخلاص سے بھی اونچا مقام ہے۔ ------------------------------