اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
غایتِ قرب كو بتلا كر یه واضح كیا جاتا هے كه اس سے فائده اٹھانا اور راهنمائی حاصل كرنا نهایت آسان هے، جیسے: تعظیم وتحقیر دونوں كی مثالوں سے واضح هے۔ ایسا هی حال اسم اشاره بعید میں بھی هے، جیسے: ﴿فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهُ ’’فَأُولٰئِكَ‘‘ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهُ ’’فَأولٰئِكَ‘‘ الَّذِیْنَ خَسِرُوْا أَنْفُسَهُمْ فِيْ جَهَنَّمَ خٰلِدُوْنَ٭﴾۱ [المؤمنون: ۱۰۲- ۱۰۳] ۶ كمال العنایة به: مشارٌ الیه كی طرف دوسروں كو مكمل طور پر متوجّه كرنا اور اس كو هم جنسوں سے ممتاز ونمایاں كرنا مقصود هو، جیسے فرزدق كا شعر: هٰذَا الَّذِيْ تَعْرِفُ الْبَطْحَاءُ وَطْأتَهٗ ۃ وَالْبَیْتُ یَعْرِفُهٗ وَالْحِلُّ وَالْحَرَمُ۲ ۷ إظھار الاستغراب: یعنی كسی شیٔ كو اس كے اَنوكھا ونادِر هونے كو ظاهر كرنے كے لیے اسم اشاره كی صورت میں لانا، جیسے: كَمْ عَاقِلٍ عَاقِلٍ أَعْیَتْ مَذَاهِبُهُ ۃ وَجَاهِلٍ جَاهِلٍ تَلْقَاهُ مَرْزُوْقًا هٰذَا الَّذِيْ تَرَكَ الْأَوْهَامَ حَائِرَةً ۃ وَصَیَّرَ الْعَالِمَ النِّحْرِیْرَ زِنْدِیْقًا۳ ۸ تعریض بغباوت السامع: سامع كی غباوت كی طرف اشاره كرنا، كه اس كے سامنے مسند الیه اِشارهٔ حسیه هی سے ممتاز هوگا، جیسے: ﴿’’هٰذَا‘‘ خَلْقُ اللهِ، فَأَرُوْنِيْ مَاذَا خَلَقَ ۱ اس جگه اول اسم اشاره برائے تعظیم هے، اور ثانی برائے تحقیر هے۔ (علم المعانی) ۲’’یه (حضرت زین العابدینؒ علی بن حسین كی) وه شخصیت هے جن كے نشانِ قدم كو ارض بطحاء (مكه مكرمه كی سر زمین) پهچانتی هے، اور بیت الله اور حل وحرم اِنهیں جانتے هیں ‘‘؛ دیكھیے! فرزدق شاعر نے امام رضی الله عنه كے لیے اسمِ اِشاره قریب استعمال فرما كر بتلایا كه: حضرت تو ذات كے اعتبار سے بڑی شان والے هیں ، اور عالی نسب سے ان كا تعلق هے؛ اسی وجه سے وه لوگوں سے بهت زیاده قریب بھی هیں ؛ یهاں شاعر نے اسمِ اشاره لاكر دوسروں كو بھی حضرت كی طرف متوجه كیا هے۔(علم المعانی) ۳ترجمه: كتنے هی عقلمند ایسے هیں كه ان كو كسبِ معاش كے طریقوں نے پریشان كر ركھا هے اور كتنے هی نرے جاهلوں كو اے مخاطب تو خوش عیش اور تونگر دیكھے گا، اسی چیز نے تو عقلوں كو چكر میں ڈال دیا هے اور عالم باكمال كو كافر بنا دیا هے؛ اس دوسرے شعر میں لفظِ ’’ھٰذا‘‘ كا استعمال كرنے كی غرض نُدرت اور غرابت كا اظهار كرنا هے۔