اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
اللهُ بَیْنَنَا، ’’وَهُوَ‘‘ خَیْرُ الْحٰكِمِیْنَ٭﴾۱ [الأعراف:۸۷]. ملحوظه: یهاں ایك قاعده ضرور ملحوظ ركھنا چاهیے كه: ’’أسْمَاءُ الظَّوَاهِرِ كُلُّهَا غُیَّبٌ‘‘، اسمِ ظاهر كو غائب كے درجے میں ركھا جاتا هے اگر چه وه خود موجود هی كیوں نه هو، جیسے: ﴿اَللهُ الَّذِيْ ’’رَفَعَ‘‘ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا﴾۲ [الرعد:۲] .فصل ثانی: علَم علَم: وه اسم هے جو كسی معین چیز كے لیے وضع كیا گیا هو اور اس وضع میں وه كسی دوسرے كو شامل نه هو، جیسے: ﴿’’مُحَمَّدٌ‘‘ رَّسُوْلُ اللهِ﴾۳ [الفتح:۲۹]. فائده: سامع كے ذهن میں مسند الیه كے مدلول كو معین ومشخص صورت میں لانے كا تقاضه هو تو مدلول كے خاص نام (علم) كو ذكر كیا جاتا هے، جیسے: ﴿قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ٭ ’’اَللهُ‘‘ الصَّمَدُ٭﴾۴ [الإخلاص:۲-۱] ۱(اگر تم نے میرے لائے هوئے دین كے بارے میں اختلاف هی كی ٹھان ركھی هے اور اسے تم متفقه طور پر قبول نهیں كرتے) تو انتظار كرو یهاں تك كه الله رب العالمین همارے درمیان فیصله كرے، وه بهترین فیصله كرنے والا هے۔ یهاں پهلے لفظ الله كا ذكر هوچكا هے اور قاعده هے ’’اسْمَاء الظَّوَاهرِ كُلُّها غُیَّبٌ‘‘، اس كے پیش نظر ضمیرغائب راجع فرمائی هے۔ (علم المعانی)؛ ومنه قولهٗ تعالیٰ: ﴿اِعْدِلُوْا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی﴾ [المائدة:۸]، أي: العَدْل المفْھوْم مِن قوْله: ﴿اِعْدِلُوْا﴾؛ وقولهٗ عز وعلا: ﴿وَإِنْ قِیْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ أَزْكیٰ لَكُمْ﴾ [النور: ۲۸]، أي: الرجوع المفھوم من قوله: فارجِعُوا (علم المعاني) ۲دیكھیے! باری تعالیٰ تو هر جگه هر آن موجود هے پھر بھی اسم ظاهر هونے كی بناء پر ﴿رَفَعَ﴾ میں باری تعالی كی طرف ضمیرِ غائب كو راجع فرمایا۔ ۳محمد ﷺ الله كے رسول هیں ؛ دیكھیے! جب آپﷺ كے لیے وصفِ رسالت كے اِثبات كا موقع آیا تو باری تعالیٰ نے آپ كے مخصوص نام ’’محمد‘‘ كو ذكر فرمایا، نه كسی اور صفت كو؛ تاكه آپ كی رسالت پر شهادت پخته هوجائے۔ ۴(جو لوگ الله كی نسبت پوچھتے هیں كه: وه كیسا هے؟) آپ كهه دو! بات یه هے كه الله (ذات وصفات) هر لحاظ سے ایك هے؛ چوں كه یه مقام بے دین لوگوں پر رد كا هے اور ان كے سامنے توحیدِ الٰهی كو واضح كرنے كا هے؛ لهٰذا ذات باری كی مخصوص نام سے تذكره زیاده موزوں اور مناسب تھا، اس وجه سے لفظ ﴿اَللهُ﴾ كو ذكر كیا گیا۔