اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
تعریفاتِ وصل وفصل وصل: كلام كے بعض حصے كو دوسرے بعض حصے سے جوڑنے اور حكمِ ماقبل میں شریك كرنے (یعنی: عطف كرنے) كو ’’وصل‘‘ كهتے هیں ؛ چاهے یه جوڑنا اور شریك كرنا مفردات میں هو یا جملوں میں هو؛ نیز چاهے وه جوڑنا واو كے ذریعے هو یا دیگر حروفِ عاطفه كے ذریعے، جیسے: ﴿إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِيْ نَعِیْمٍ٭ وَّإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِيْ جَحِیْمٍ٭﴾۱ [الانفطار:۱۴-۱۳]. فصل: دو جملوں كے درمیان عطف كو چھوڑ دینا، جیسے: ﴿صَلِّ عَلَیْهِمْ، إِنَّ صَلوٰتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ﴾۲ [التوبة:۱۰۳]. بُلغا اس بحث كے ضمن میں عطف مفردات، عطفِ جُمَل التی لها محل من الاعراب كو تبعا ذكر فرماتے هیں ؛ حالاں كه اصل مقصود ان جملوں كے عطف سے بحث كرنا هے جن كا كوئی محل اعراب نهیں ۔ ۱بیشك نیك لوگ نعمتوں میں هوں گے اور بد كار لوگ دوزخ میں هوں گے؛ یهاں توسُّط بَینَ الكَمَالین هے، یعنی: دونوں جملے خبر یا انشاء میں متحد هیں ، اور عطف سے مانع كوئی بھی چیز نهی؛ نیز دونوں باری تعالیٰ كے اَقوال (وعده ووعید) هیں ، اورحرفِ تاكید سے مقید هیں ۔ تفصیل آگے آرهی هے۔ ۲ یهاں دونوں جملوں ﴿صلِّ - إِنَّ صَلوٰتَكَ﴾ میں كمال انقطاع (تباین تام) هے؛ كیوں كه پهلا جمله انشائیه هے، اور دوسرا خبریه هے؛ لهٰذا فصل كیا گیا هے۔ تفصیل آگے آرهی هے۔ ملحوظه: بلغاء حضرات وصل وفصل كی بحث میں مفردات كے عطف سے نیز اُس جملوں كے عطف سے جن كے لیے اعراب كا محل هے، بحث نهیں كرتے؛ كیوں كه ایسے مواقع میں صرف بعد والے حصے كو ماقبل كے حكمِ اعرابی میں شریك كرنا مقصود هوتا هے جس كو پهچاننا آسان هے؛ هاں ! وصل وفصل كی بحث كی گهرائی اور نزاكت ان جملوں میں ظاهر هوتی هے جهاں دو جملوں كے درمیان كوئی محل اعراب نه هو؛ لهٰذا بلغاء اس وصل وفصل سے بحث كرتے هیں ۔ نیز واو حرف عطف محض حكمِ ماقبل میں شركت اور مطلق جمع كے لیے آتا هے؛ اس وجه سے اس كا معامله اهمیت كا حامل هے، جب كه دیگر حروفِ عاطفه میں شركت كے علاوه دیگر معانیٔ مقصوده بھی هوتے هیں ؛ اس لیے ان كے ذریعے وصل وفصل كرنے میں دقیق وجهیں اور پوشیده نكات نهیں هوتے؛ جب كه وصل بالواو میں كافی فوائد واسرار هوتے هیں ، لهٰذا بلغاء صرف وصل بالواو سے بحث كرتے هیں نه كه وصل بغیر الواو سے۔(علم المعانی)