اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
عنوان (عَلَم یا صله وغیره)كو نه جانتا هو، جیسے: ﴿ثُمَّ أَذَّن مُؤذِّنٌ ’’أَیَّتُهَا الْعِیْرُ‘‘ إِنَّكُمْ لَسٰرِقُوْنَ﴾۱ [یوسف:۷۰]. ۲ الإشارة إلی العلة: كسی چیز كی علت كی طرف ایماء واشاره كرنے كے لیے منادیٰ مخاطب كو بجائے اس كے خاص نام كے كسی ایسے وصف سے پكارنا جس سے دیے جانے والے حكم كی علت كی طرف اشاره هو، جیسے: ﴿’’یٰٓأَیُّهَا الرَّسُوْلُ‘‘ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إلَیْكَ مِنْ رَبِّكَ، وَإنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ﴾۲ [المائدة:۶۷]. .6 ملحوظه.6: .6كبھی ندا میں خطاب عام هوتا هے جس میں حاضرین وغائبین تمام شامل هوتے هیں ، جیسے خروج دجال كے وقت كے مخاطبین سے آپ ﷺ كا خطاب.6:.6 .6یَا .6عِبَادَ .6اللهِ! .6اِلْبَثُوْا؛ اسی طرح الله تعالیٰ كے تمام خطابات بھی اس میں شامل هیں جن كا تعلق پوری اُمت سے هے۔تنكیر: فصل اوّل: تنكیر مسند الیه نكره: وه اسم هے جو كسی غیر معین چیز كے لیے وضع كیاگیا هو، جیسے: فَرَسٌ كوئی گھوڑا۔ جب مسندالیه كو معرفه كی سات صورتوں سے متعلق اغراض میں سے كوئی بھی غرض وابسته نه هو؛ بلكه نكره استعمال كرنے كی كوئی غرض وابسته هو تو اس وقت مسندالیه كو نكره لایا جاتا هے۔ مسند الیه كو بجائے معرفه كے نكره لانے میں بلغاء كی اغراض یه هیں : تَنْكِیْر المسْنَد إلَیْه، قَصْد الإفْرَاد، قَصْدُ النَّوْعِیَّة، قَصْد الجِنْس، التَّقْلِیْل، التَّكْثِیْر، التَّعْظِیْم، التَّحْقِیْر، التَّهْوِیْل والتَّخْوِیْف، العُمُوْم بَعْد النَّفْيِ، إخْفَاء الأمْرِ، ۱پھر پكارا ایك پكارنے والے نے: اے قافله والوں تم هی چور هو! دیكھیے یهاں پكارنے والے كو قافله والوں كا مطلق كوئی علم نه تھا؛ لهٰذا یه اسلوب اختیار كیا۔ ۲یعنی: اے پیغمبر (پیغام پهنچانے والے) آپ پر جو كچھ پروردگار كی طرف سے اُتارا جائے -خصوصاً فیصله كُن اِعلانات- آپ بے خوف وخطر اور بلاتأمل پهنچاتے رهیے! اگر بفرض محال كسی ایك چیز كی تبلیغ میں بھی آپ سے -بحیثیت رسول آپ كو رسالت وپیغام رسانی كا جو منصبِ جلیل تفویض هوا هے- كوتاهی هوئی تو سمجھا جائے گا كه: آپ نے اس كا حق كچھ بھی ادا نه كیا؛ دیكھیے! یهاں پیغمبر كو پیغام رسانی پر اُبھارنے كے لیے انهیں منصبِ رسالت سے پكارا گیا۔