اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
استفهام كے معانیٔ مجازیه كبھی ادواتِ استفهام اپنے حقیقی معنی كے علاوه دیگر حاصل هونے والے مجازی معنوں میں مستعمل هوتے هیں جب كه قرائن پائے جائیں ۔ اُن میں سے بعض حسبِ ذیل هیں ۔ التَّسْوِیَة، النَّفْي، الإنْكَار: (إنْكَارِيٌّ تَوْبِیْخِيّ، إنْكَارِيّ تَكْذِیْبي)، الأمْرُ، النَّهْي، التَّشْوِیْق، التَّعْظِیْم، التَّحْقِیْر والاسْتِخْفَاف، التَّوْبِیْخ، التَّعَجُّب، التَّقْرِیْر: (طَلَبُ الاِقْرَار، التَّحْقِیْق والاِثْبَات)، التَّهَكُّم، الاسْتِبْطَاء، الاسْتِبْعَاد والتَّعْجِیب، التَّنْبِیْه عَلی الخَطأ، التَّنْبِیْه عَلی الضَّلال، التَّهْوِیْل، التَّمَنِّی، الوَعْیْد والتَّهْدِیْد، التَّحَسُّر، العِتَاب، التَّذْكیْر، الافتِخَار، التَّرْغیْب. ۱ تسویه: یعنی ادات استفهام كے ذریعے دو چیزوں میں برابری ثابت كرنا، جیسے: ﴿سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لایُؤْمِنُوْنَ﴾۱ [یٰسٓ: ۱۰]. ۲ نفی:كسی چیز كے نه هونے كو بتلانا، جیسے: ﴿هَلْ جَزَآءُ الإِحْسَانِ إِلاَّ الْإِحْسَانُ٭﴾۲ [الرحمٰن: ۶۰] ۱وه لوگ جو كافر هوچكے (اور دولت ایمان سے همیشه كے لیے محروم كر دیے گئے، جیسے ابوجهل ابولهب وغیره) برابر هے كه تم ان كو ڈرائیں یا نه ڈرائیں ، وه ایمان نه لائیں گے۔ یهاں ﴿لایُؤْمِنُوْنَ﴾ كے قرینه سے معلوم هوتا هے كه استفهام تسویه كے لیے هے۔ ۲نیكی كا بدله نیكی هی هے۔ یعنی نیك بندگی كا بدله نیك ثواب كے سوا كیا هوسكتا هے؟ یهاں ’’ھل‘‘ یه ’’ما‘‘ نافیه كے معنیٰ میں هے۔ ملحوظه: نفیِ صریحی اور نفی بطریق استفهام میں فرق یه هے كه: استفهام كی صورت میں مخاطب كو نفی كے ساتھ منفی عنه سے رُكنے پر اُبھارنا، نیز منفی عنه كے بابت باربار سوچنے اور غوروفكر كرنے پر آماده كرنا بھی مقصود هوتا هے، تاكه باربار سوچنے اور غور وفكر كرنے كے نتیجے میں مخاطب كے سامنے غلطی واضح هوجائے اور اس كام سے همیشه دور رهے؛ دیكھیے! باری تعالیٰ كے فرمان: ﴿وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللهِ أَنْ یُّذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهُ وَسَعیٰ فِيْ خَرَابِهَا﴾ [البقرة:۱۱۴] اور ﴿وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی الله كَذِبًا﴾ [العنكبوت:۶۸] میں كس بلیغ اسلوب سے مخاطب كو سوچنے پر آماده كیا جارها هے؛ یه فائده معروف نفی میں ندارد۔ (علم المعانی)