اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
تَشْكُرُوْنَ﴾ [الانفال: ۲۶]. ۳ ﴿قُلِ: اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ! ’’تُؤْتِيْ الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ‘‘، وَ’’تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ‘‘﴾ [آل عمران:۲۶]. ۵/۴ ﴿یٰبُنَيَّ! ’’أَقِمِ الصَّلوٰةَ‘‘، وَ’’أْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ‘‘، وَ’’انْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ‘‘، وَ’’اصْبِرْ عَلیٰ مَآ أَصَابَكَ‘‘؛ إِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُوْرِ٭؛ وَ’’لَاتُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ‘‘، وَ’’لَاتَمْشِ فِيْ الْأَرْضِ مَرَحًا‘‘؛ إِنَّ اللهَ لَایُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ﴾۱ [لقمان:۱۷] ملحوظه: محسنات وصل میں تناسب كی رعایت اس وقت هوگی جب كه تناسب كی مخالفت كرنے كا كوئی داعیه نه هو، اگر كوئی داعی تناسب كی مخالفت كا متقاضی هو تو اس وقت وصل كرتے هوئے مخالفت كرنا مقتضائے حال كے مطابق هوگا، اور یه مخالفت مستحسن هوگی، جیسے: ﴿إِنَّ المُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللهَ، وَهُوَ خٰدِعُهُمْ﴾۲ [النساء:۱۴۲].وصل وفصل كی اجمالی صُوَرِ خمسه وصل وفصل كی بحث كو سمجھنے كے لیے مذكوره پانچ صورتیں ملاحظه فرمائیں : ۱ عطف مفردات: اگر مفردات میں آپس كا تناسب هو تو وصل یعنی عطف كیا جائے گا، جیسے: ﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ [الأنعام:۱۶۲]؛ ۱ دیكھیے! پهلی مثال جمله اسمیه كی هے جو مقید بحرفِ تاكید هے، دوسری مثال جمله فعلیه خبریه بفعلِ ماضی كی، تیسری جمله فعلیه خبریه بفعلِ مضارع، چوتھی جمله فعلیه انشائیه بفعلِ امر اور پانچویں مثال جمله فعلیه انشائیه بفعلِ نهی كی هے۔ ملحوظه: محسناتِ وصل كی رعایت مستحسن هے، ضروری نهیں ؛ لهٰذا جملوں كے مابین عدمِ تناسب كی حالت میں بھی -وصل كے متقاضی كی رعایت میں - وصل كیا جاتا هے؛ هاں ! خبر وانشاء میں توافق ضروری هے، ورنه وصل هی نه هوگا۔ تفصیل مواضع فصل میں آرهی هے۔ ۲اس آیت میں معطوف علیه ﴿یُخٰدِعُوْنَ اللهَ﴾ كو جمله فعلیه بفعلِ مضارع تعبیر كیا، اور معطوف ﴿وَهُوَ خٰدِعُهُمْ﴾ كو جمله اسمیه سے تعبیر فرمایا هے اور یه بتایا هے كه: منافقین كا خداع حادث ومتجدد هے، جب كه الله تعالیٰ كا خداع پر جواب دینا دائمی اور تمام احوال میں ثابت هے۔ (علم المعانی)