اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
اِبتداء وانتهائے كلام علمائے بلاغت نے متكلم كو اس بات پر آگاہ كیا ہے كہ: وہ اپنے كلام میں تین جگہوں پر اپنی فن كاری دِكھائے: ۱ ابتدائے كلام میں ، ۲ ایك مضمون سے دوسرے مضمون كی طرف منتقل ہونے، یاقرآن وحدیث سے اقتباس كرنے، یا غیر كے كلام كو اپنے كلام كا جزو بنانے میں ، یاكسی عبارت سے كوئی بات اشارةً یا استنباطاً سمجھانے میں ؛ ۳انتہائے كلام میں ۔ تفصیل مندرجهٔ ذیل هے۱: ۱حسن ابتدا، ۲ براعتِ استهلال، (وبراعتِ مطلع)، ۳ حسن تخلص، ۴ عنوان، ۵اقتضاب، ۶ براعة طلب، ۷ اقتباس، ۸ استشہاد، ۹ تضمین، ۱۰ تلمیح، ۱۱ حسن انتهاء، (وبراعتِ مقطع)۔ ۱ حُسْنِ اِبْتِدا: متكلم مقتضائے حال كے مطابق لطیف معانی اور بلند خیالات كی ادائیگی كے لیے اپنے كلام كے آغاز میں شریں كلمات، عمدہ تركیبات لائے؛ تاكہ مخاطب ابتدا ہی سے اس كلام كی طرف راغب ہوكر مكمل دھیان سے سنے اور محفوظ كرلے، جیسے: ﴿الرَّحْمٰنُ عَلَّمَ القُرْآنَ خَلَقَ الإِنْسَانَ عَلَّمَهُ البَیَانَ﴾۲. ملحوظه: عربوں كی بلاغت قصائد سے آشكارا هوتی هے، وه قصیدوں كے آغاز میں عجیب وغریب مناظر اور هول ناك واقعات كا تذكره كركے اپنے قصیدوں كو مزین كرتے تھے؛ اس ۱ان مواقع میں فن كاری دكھانے كا مطلب یہ ہے كہ: ایسے مواقع پر كلمات شریں ، تركیبات عمدہ اور مقتضائے حال كے مطابق لطیف وعمدہ معانی لائے۔ متكلم اگر ان مواقع میں فن كاری نہ دكھا ئے تو لوگ اس كے كلام كو قبیح اور عیب دار شمار كریں گے اور اس كے كلام سے كنارہ كشی اختیار كریں گے۔ ۲ دیكھیے: الله تعالیٰ نے اپنی صفتِ رحمان كو ذكر فرما كر انسان كو اپنے احسانات (انسان كی خلقت، قرآن كا فهم وغیره) یاد دِلائے هیں ۔ اسی طرح ممدوح كی تشریف آوری پر تعریف كرتے ہوئے شاعر نے كہا: طَلَعْتُمْ بُدُوْرًا فِيْ أَعَزِّ الْمَطَالِعِ ۃ فَبَشَّرَنِيْ قَلْبِيْ بِسَعْدِ طَوَالِعِيْ ترجمه: آپ لوگ معزز مطلع میں چودھویں رات كی چاند كی طرح طلوع ہوئے، پس خوشخبری دی میرے دل نے میرے نصیبے كے نیك بخت ہونے كی۔(علم البدیع)بزیادة