اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
۸ الاستعطاف والحثُّ علی الشفقة: اضافت سے كبھی مهربانی كو طلب كرنا اور شفقت پر اُبھارنا مقصود هوتا هے، جیسے: ﴿لاَتُضَآرَّ وَالِدَةٌ بِـ’’وَلَدِهَا‘‘ وَلَامَوْلُوْدٌ لَّهُ بِـ’’وَلَدِهِ‘‘﴾۱ [البقرة: ۲۳۳]. ۹ قصد العموم: اِضافت كے اُسلوب سے كبھی عمومیت مقصود هوتی هے، جیسے: ﴿فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ ’’أَمْرِهِ‘‘﴾۲ [النور:۶۳].فصل سابع: نداء معرفه بنداء: وه اسم جو پكار نے كی وجه سے معرفه بن جائے، جیسے: یا رَجُلُ، اس میں ’’یا‘‘ حرف نداء هے، اور ’’رَجُلُ‘‘ منادیٰ هے۔ .6 كلام كا كوئی جزو معرفه به صورتِ منادی هے تو اس كی اغراض یه هیں : لَمْ یُعْرَفْ للمُخَاطَب عُنْوَان خَاصٌّ، الإشَارَة إلَی العِلَّة۔. ۱ لم یُعْرَف للمخاطَب عُنْوان خاصّ: جب كه متكلم مخاطب كے كسی خاص مكه كے قید خانے میں مقید هے۔ یهاں لفظ ’’هَوَایَ‘‘ به معنیٰ: حَبِیْبِی (مضاف مضاف الیه) كو شاعر نے ’’اَلَّذِيْ أهْوَاهُ‘‘ كی جگه استعمال كیا هے؛ كیوں كه محبوب سے فراق وجدائی كے وقت شدّت رنج وملال كی وجه سے وقت میں تنگی آگئی هے؛ لهٰذا شاعر نے اختصار كو پسندكیاهے۔ ۱ترجمه: (میاں بیوی كے درمیان جدائیگی كے بعد دودھ پینے والے بچے كے بارے میں ) فرمایا: نه ماں كو اپنے بچے كے بابت ستایا جائے، اور نه هی باپ كو اپنے بچے كے بابت ستایا جائے؛ یعنی: اگر بچه ماں كے پاس هے تو باپ سے كها گیا كه: اگر ماں ’’اپنے بچے‘‘ كو دودھ پلانے پر راضی هے تو اُس سے بچے كو چھین كر ستایا نه جائے؛ كیوں كه یه آخر عورت كا بھی حقیقی بچه هے؛ اور اگر بچه باپ كے پاس هے تو ماں سے كها گیا كه: اگر شوهر ’’اپنے بچے‘‘ كے بارے میں پریشان هے، اور ’’تیرا‘‘ بچه كسی اَور كا دودھ نهیں لیتا تو توهی دودھ پلادے! آخر یه بھی تو شوهر كا حقیقی بیٹا هے۔ یهاں ﴿وَلَدٌ﴾ كی اضافت ماں اور باپ میں سے هر ایك كی طرف كر كے بتلایا كه: میاں بیوی میں سے كسی ایك كو تكلیف دینا در حقیقت بچے كو تكلیف دینا هے اور آپسی اختلاف سے اپنے پیارے كو كیوں تكلیف پهونچائے۔ (علم المعانی) ۲ یعنی الله ورسول كے احكام كی خلاف ورزی كرنے والوں كو ڈرنا چاهیے۔ یهاں ﴿أَمْرِهِ﴾ سے ’’كل أمر الله والرسول‘‘ مراد هے، یعنی اس مختصر لفظ میں الله ورسول ﷺكے تمام اَوامر كا اِحاطه كر لیا هے۔ (الاتقان فی علوم القرآن)