اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
۴ استلذاذ: لذت حاصل كرنا هو جب کہ وه قابلِ لذت هو، جیسے: قالَتِ العَاشِرةُ: زَوْجِیْ مَالِكٌ، وَمَا مَالِكٌ! ’’مَالِكٌ‘‘ خَیْرٌ مِنْ ذٰلِكَ۱. ۵ بیانِ اختصاص: معین ذات كے ساتھ مخصوص امر كو ذكر كرتے هوئے اس معین ذات كو بصورتِ علم تعبیر كرنا، جیسے: ﴿’’اللهُ‘‘ الَّذِيْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا﴾ [الرعد:۲]؛ ﴿اللهُ أَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهُ﴾۲ [الأنعام: ۱۲۴].فصل ثالث: اسمِ اشاره اسم اشاره: وه اسمِ غیر متمكن هے جو كسی محسوس چیز كی طرف اِشاره كرنے كے لیے وضع كیا گیا هو؛ اسی طرح جب كسی چیز كو مكمل ممتاز كرنا مقصود هو تو اسمِ اشاره سے تعبیر كرتے هیں ، جیسے: ﴿إِنَّ ’’هٰذَا‘‘ الْقُرْاٰنَ یَهْدِيْ لِلَّتِيْ هِيَ أَقْوَمُ﴾۳ [بني إسرائیل:۹]. ملحوظه: جب مسند الیه كی تعظیم یا تحقیر واهانت مقصود هو تو اس وقت كنیتوں اور اچھے برے القاب كو ذكر كیا جاتا هے، چوں كه عربی النسل لوگ طبعی طور پر القاب مذمومه سے نفرت كرتے هیں ، ان كی طرف نسبت كونا پسند كرتے هیں ؛ اور اچھے القاب كو قبول كرتے هیں ، ان كی طرف نسبت كو پسند كرتے هیں اس لیے القاب محموده میں ابو الخیر، ابو المعالی وغیره كهتے هیں ، اور القاب مذمومه میں ابو الجهل، أنف الناقة وغیره لاتے هیں ۔ (علم المعانی) ۱ حدیثِ اُمّ زرع میں دسویں عورت نے كها تھا: ’’میرا شوهر مالك هے، مالك كے كیا كهنے! مالك تو ان تمام عورتوں كے شوهروں سے بهتر هے (جن كا ذكر اب تك هوا هے)‘‘؛ یهاں تیسری جگه مالك كا تذكره كرنا برائے استلذاذ هے۔ (شمائل ترمذی) ۲ آیتِ اولیٰ: الله كی ذات وه هے جس نے آسمانوں كو بغیر ستون كے قائم ركھا هے؛ دیكھیے: آسمانوں كو بلند كرنا، صرف اسی كی طرف منسوب هے؛ لهٰذا لفظ الله كو بصورتِ علم ذكر كیا۔ (علم المعانی)۔ آیتِ ثانیه: اور جب اهلِ مكه كے پاس (قرآن كی) كوئی آیت آتی هے تو یه كهتے هیں : هم اس وقت تك هرگز ایمان نهیں لائیں گے جب تك اُس (پیغمبری) جیسی چیز خود همیں نه دے دی جائےجیسی الله كے پیغمبروں كو دی گئی تھی؛ حالاں كه ’’الله تعالیٰ كی ذات هی بهتر جانتی هے كه وه اپنی پیغمبری كس كو سپرد كرے‘‘۔ دیكھئے! رسول كی تعیین كرنا صرف اُسی كی طرف منسوب هے۔ ۳بے شك یه قرآن وه راه بتلاتا هے جو سب سے سیدھی هے۔ یعنی: یوں تو تَورات بھی بنی اسرائیل كو راه بتلانے والی تھی جیسا كه فرمایا هے: ﴿هُدًی لِّبَنِیْ إِسْرَآءِیْلَ﴾؛ لیكن یه قرآن ساری دنیا كو سب سے زیاده اچھی سیدھی اور مضبوط راه بتلاتا هے۔تمام قویم راهیں اس ’’اَقْوَم‘‘ كے تحت مندرج هو گئیں ؛ دیكھئے! قرآنِ مجید كو مكمل ممتاز كرنے كے لیے اِشاره قریب كا اُسلوب اختیار فرمایا۔