اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
جیسے حضرت هود علیه السلام كا فرمان: ﴿قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِيْ ’’سَفَاهَةٌ‘‘ وَّلٰكِنِّيْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾۱ [الأعراف:۶۷] ۱۳ تجاھل عارفانه: متكلم كا كسی مسندالیه كے بابت لاعلمی كا اظهار كرنا، اور یه بتانا كه: مَیں نه اس كا نام جانتا هوں ، اور نه هی اس كی حقیقت جانتا هوں ،جیسے: ﴿هَلْ نَدُلُّكُمْ عَلیٰ ’’رَجُلٍ‘‘ یُّنَبِّئُكُمْ إِذَا مُزِّقْتُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ، إِنَّكُمْ لَفِيْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ﴾۲ [السبأ:۷]فصل ثانی: تنكیر وتعریف مسند مسند كو نكره لانے كی اغراض: ۱ الإصَالَة ۲ اِنْتِفَاء الحَصْر والعَهْد ۳ تَفْخِیْمُ المسْنَد. ۱ اِصالت: یعنی مسند میں اصل تنكیر هے اس وجه سے نكره لانا، یه غرض اكثر وبیشتر هوتی هے۔ ۲ انتفاء حصر وعهد: یعنی تعریف سے حاصل هونے والا حصر مقصود نه هو، اور نه هی معهود كی طرف اِشاره كرنا مقصود نه هو، جیسے: زَیْدٌ كَاتِبٌ، عَمْرٌو شَاعِرٌ۳. ۳ تفخیمِ مسند: مسند كی علوِ شان بتلانا مقصود هو، جیسے: ﴿هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾۴. مسند كو معرفه لانے كی اغراض: ۱ إرَادَةُ العَهْد ۲ إفَادَةُ القَصْر ۳ إفَادَةُ اللَّطَائِف، ۴ تَعْظِیْم المسْنَدِ إلیْه. ۱ ارادهٔ عهد: جب كه مخاطب كو مسند كا وقوع معلوم هو؛ لیكن اس كا مسند الیه معلوم نه ۱حضرت هود علیه السلام نے فرمایا: اے میری قوم! مَیں بے عقل نهیں هوں ؛ بلكه پروردگارِ عالم كی طرف سے بھیجا هوا ایك رسول هوں ۔ ۲كفار قریش نبیٔ كریم ﷺ كی شان میں یه گستاخی كرتے تھے، یعنی: آؤ! تمهیں ایك شخص دكھلائیں جو كهتا هے كه: تم گَل سڑ كر اور ریزه ریزه هوكر جب خاك میں مل جاؤ گے پھر تم كو ازسرِ نَو بھلا چنگا بنا كر كھڑا كردیا جائے گا؛ بھلا ایسی مهمل بات كون قبول كرے گا؟۔ ۳اسی مثال میں اگر تخصیص كا اِراده هوتا تو زیْدٌ الكاتبُ، عَمْرٌو الشَّاعِر كها جاتا؛ اسی طرح متكلم ومخاطب كے درمیان معهود كے بابت بات هو تو كها جائے گا: فُلان الكاتِبُ، فُلانٌ الشَّاعِر. (علم المعانی) ۴ اس آیت میں ﴿هُدًی﴾ مسند كی تنكیر نے ھدایت القرآن كی تعظیم وتفخیم كا فائده دیا هے، یعنی قرآن مجید كی ھدایت اس درجه پهونچی هوئی هے جس كی كنه وحققیت كا ادراك كرنا ممكن هی نهیں !۔ سبحان الله العظیم!