اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
ملحوظه: باری تعالی كے فرمان: ﴿فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلیٰ اٰثَارِهِمْ إِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ أَسَفًا﴾۱ [كھف:۶] میں لعلّ محض رجا كے لیے نهیں هے؛ بلكه نهی (حكمِ واجبی) كے لیے هے۔ ھَلَّا، لَوْلَا، لَوْمَا: بھی هَلْ اور لَوْ سے ماخوذ هیں ، اور فعلِ ماضی پر دخول كے وقت تندیم كا معنیٰ اور فعلِ مضارع پر دخول كے وقت تحضیض كا معنی دیتے هیں ۔ (جواهر، علم المعانی)فصل خامس: ترجّی تَرَجِّي: كسی امرِ مرغوب متوقِّع الحصول (هوسكنے والے) كا منتظر رهنا، جیسے: ﴿وَمَا یُدْرِیْكَ لَعَلَّهُٗ یَزَّكّٰی٭ أَوْ یَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرٰے﴾ [عبس:۳،۴]؛ ﴿عَسیٰ اللهُ أَنْ یَّأْتِيَ بِالْفَتْحِ﴾۲ [المائدة:۵۲] ۱یه كافر اگر قرآن كی باتوں كو نه مانیں تو آپ غم میں اپنے آپ كو بالكل گھلایئے نهیں ! آپ تبلیغ ودعوت كا فرض ادا كر چكے اور كر رهے هیں ؛ لهٰذا آپ كو اس قدر همدردیٔ خلائق میں اس قدر گھٹنے اور غمگین هونے كی ضرورت نهیں ! آپ تو بهرحال كامیاب هیں ، اشقیاء اگر قبول نه كریں تو ان هی كا نقصان هے۔ (اعراب القرآن، فوائد) ۲ آیتِ اولیٰ: پیغمبر نے ایك اندھے كے آنے پر چیں بجبیں هوكر منه پھیر لیا حالاں كه وه طالب صادق تھا، تمھیں كیا معلوم كه تمھارے فیضِ توجُّه سے اس كا حال سنور جاتا اور اس كا نفس مُزكیّٰ هوجاتا؛ یا تمھاری كوئی بات كان میں پڑتی اس كو اخلاص سے سوچتا، سمجھتا اور آخر وه بات كسی وقت اس كے كام آجاتی۔ یهاں مخاطب كی غایت كرامت كا لحاظ كرتے هوئے اول كلام بطرزِ غیبوبت تھا اور آگے شبهٔ اِعراض كو دور كرتے هوئے بطورِ التفات خطاب كا صیغه استعمال فرمایا گیا۔ (علم المعانی، فوائد) آیتِ ثانیه:یعنی هوسكتا هے كه: الله تبارك وتعالیٰ اپنے نبی علیه السلام كو فیصله كن فتوحات اور غلبه عطا فرمائے، اور مكه معظمه میں بھی -جو تمام عرب كا مسلمه مركز تھا- حضور كو فاتحانه داخل كرے؛ یا اپنی قدرت اور حكم سے كچھ اَور اُمور بروئے كار لائے جنهیں دیكھ كر ان منافقین كی ساری باطل توقعات كا خاتمه هو، اور انهیں منكشف هوجائے كه: دشمنان اسلام كی مُوَالات كا نتیجه دنیوی ذلت ورسوائی اور اُخروی عذابِ الیم كے سوا كچھ نهیں !(علم المعانی، فوائدعثمانی) ملحوظه: یاد رهے كه: باری تعالیٰ نے جهاں افعالِ رجا كو ذكر فرمایا هے اس سے مراد -العیاذ بالله- یه نهیں هے كه: الله تبارك وتعالیٰ اس امر كی توَقُّع كررهے هیں ؛ بلكه اس لیے افعالِ رجا كو ذكر فرمایا هے تاكه بندے اس امر كے امیدوار رهیں ، جیسے: ﴿عَسیٰ رَبُّكُمْ أنْ یُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ﴾ [الأعراف:۱۲۹]، أيْ: كوْنُوا رَاجِیْن فيْ ذٰلك. (مفردات القرآن)