اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
فصل اوّل: اِیجاز ایجاز: بهت سارے معانی كو متعارَف عبارت سے كم عبارت میں تعبیر كرنا، جو الفاظ غرضِ متكلم كو پورے طور پر واضح كرتے هوں ، یعنی: معنیٔ مرادی كو متعارَف عبارت سے كم الفاظ میں تعبیر كرنا، جیسے: ﴿خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ﴾۱ [الأعراف:۱۹۹] والاقرض‘‘ كهه كر حسنِ نیت كی طرف ا<ِشاره فرمایا، كهیں صفاتِ صحابه كو بیان كرتے هوئے ترغیبا ذكر كیا، كهیں ان صدقات پر دنیوی واُخروی فوائد ذكر فرمائے، كهیں اسی مضمون كو بےشمار فوائد بتانے كے لیے ایك حسی مثال سے سمجھایا، كهیں مصارف ذكر فرما كر اس كی طرف متوجه كیا، تو كهیں فرمایا: وه مال خرچ كرو! ’’جو تمھاری ضرورت سے زائد هو‘‘۔ دیكھیے: آیتِ اولیٰ میں ایجازِ حذف اور ایجازِ قِصر دونوں هیں ، كه: ایك هی كلمے ﴿العَفْوُ﴾ میں مضمون بیان فرمایا؛ اور علم البدیع میں سے ’’مراجعه‘‘ كا اُسلوب هے۔ آیتِ ثانیه میں ﴿مِمّا﴾ هے، جو اداتِ عموم میں سے اسمِ موصول هے؛ لهٰذا ایجازِ قِصر هے، مزید رعایتِ سجع كے ساتھ اِحسان بھی جتلایا هے۔ آیتِ ثالثه میں ایجازاً نماز، صدقاتِ نافله وواجبه كو ذكر فرمایا اور ساتھ ساتھ مجاز (استعاره) كا اسلوب اختیار فرمایا هے، یعنی: صدقه كرنا قرض دینے كی طرح هے، جس كے مِثل هی سے بدل نهیں ؛ بلكه اَضعافاً مُضاعفه سے اس كا بدل دیا جائے گا، اور یه یقینی هے؛ نیز صدقات كی اهم صفت قرض حسن كو ذكر فرمایا هے۔ آیتِ رابعه میں صدقات سے مال میں اضافهٔ كثیره كا وعده هے، صدقات كا اصل فائده (آخرت میں كام آنا) ذكر فرمایا، اور قبض وبسط میں صنعتِ ’’طباق‘‘ هے، نیز اداتِ شرط ﴿مَنْ﴾ اور ﴿یَقْبِضُ وَیَبْسُطُ﴾ میں حذفِ مفعول كی وجه سے ایجازِ قصركے ساتھ ایجازِ حذف بھی هے۔ آیتِ خامسه میں اسی معنوی مضمون كو اطناباً محسوس سے تشبیه دے كر ذكر فرمایا هے۔ آیتِ سادسه میں اسی مضمون كو صحابهٔ كرام كا عجیب نمونه دے كر قیامت تك كی نسلوں كے جذبات كو مهمیز كیا هے۔ مذكوره آیات میں آپسی موازنه كرتے هوئے اَور بھی بهت سے نكات كا استخراج كیا جاسكتا هے، اختصاراً كچھ كا تذكره كرلیا هے۔ ۱(لوگوں سے یه برتاؤ ركھیے كه اُن كے اعمال واخلاق میں سے) سرسری (نظر میں جو) برتاؤ (معقول ومناسب معلوم هوان) كوقبول كرلیا كیجیے، (ان كی ته اور حقیقت كو تلاش نه كیجیے)، اور (جو كام ظاهری نظر میں بھی بُرا هو اس میں یه برتاؤ ركھیے كه، اس باب میں ) نیك كام كی تعلیم كردیا كیجیے، اور(جو اس تعلیم كے بعد بھی براه جهالت عمل نه كرے یا نه مانے، تو ایسے) جاهلوں سے ایك كناره هوجایا كیجیے۔ یهاں سرسری طور پر بین الكوسین عبارات كا ملاحظه فرماتے هوئے آیتِ كریمه كو دیكھیے ؛ نیز ﴿العَفْوُ﴾ اور ﴿العُرْف﴾ كے محامل كا تو كوئی كناره هی نهیں !۔ اخلال: ناقص عبارت سے غرضِ متكلم پورے طور پر ادا نه هوتو اُسے ’’اخلال‘‘ كهتے هیں ، جیسے شاعر كا قول: والعَیْشُ خَیْرٌ فِي ظِلاـ ۃ ـلِ النُّوْقِ مِمَّنْ عَاشَ كَدَّا یهاں شاعر كا مقصد یه بتانا هے كه: بے وقوفی اور جهالت والی خوش عیش زندگی سے بهتر هے ، اُس عقل مندی والی زندگی سے جو تنگیٔ معیشت كے ساتھ هو؛ لیكن اس كی عبارت اس معنیٰ كو ادا كرنے سے قاصر هے۔(جواهر البلاغت)