اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
۷ كم خبریه: جس سے بڑی تعداد (عدد میں زیادتی) بیان كی جاتی هے، جیسے: ﴿كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِیْرَةً بِإِذْنِ اللهِ﴾۱ [بقرة:۲۴۹].خبر وانشاء كو ایك دوسرے كی جگه لانا وضع الخبر موضع الإنشاء: جمله خبریه كا انشائیه كی جگه كسی نه كسی غرض وفائدے كے لیے استعمال كرنا؛ اس كی بنیادی تین غرضیں هیں : ۱تفاؤل (نیك فالی)، ۲ ادب (صیغهٔ امر ونهی سے احتراز كرنا)، ۳ حث علی الامتثال (اظهار حرص ورغبت میں مخاطب كو اُبھارنا): ۱ تفاؤل: مخاطب كو خوش كرنے اور معنیٔ انشائی كے وقوع میں حرص ورغبت كا اظهار كرنے كے لیے انشاء كی جگه خبر كو استعمال كرنا، جیسے: دعا كے موقع پر متكلم صیغهٔ طلب (امر ونهی) سے اعراض كرے، اور وقوع فعل كے یقینی هونے كو بتلانے كے لیے صیغهٔ ماضی (اِخبار) كو لاكر یه بتلائے كه: مخاطب كے لیے یه دعا حاصل هوچكی هے، جیسے آپ ﷺ كی دعا: نَضَّرَ اللهُ إمْرَأ سَمِعَ مَقَالَتِيْ وَحَفِظَهَا فَوَعَاهَا وَأدَّاهَا كَمَا سَمِعَهَا؛ أي: اللهم! نَضِّرْ إمْرَأ، إلخ۲. ۲ ادباً: امر كی صورت سے احتراز كرنے كے لیے خبر كو انشاء كی جگه استعمال كرنا، جیسے غلام اپنے آقا سے یوں كهے: یَنْظُرُ مَوْلايَ فِيْ أَمْرِيْ، میرے آقا میرے معاملے میں ۱حضرت موسیٰ ں كے بعد بنی اسرائیل پر جالوت نامی كافر بادشاه مسلط هوا، جس نے بنی اسرائیل كو شهر سے نكال دیا، تب بنی اسرائیل نے حضرت شموئیلں سے كسی بادشاه كے مقرر كرنے كی درخواست كی، اس پر حضرت شموئیل نے طالوت كو بادشاه بنایا؛ هَوَس سے طالوت كے ساتھ چلنے كو سب بنی اسرائیل تیار هوگئے تاكه جالوت سے مقابله كریں ؛ لیكن آزمائش كے بعد صرف تین سَو تیره ره گئے، جن میں حضرت داؤدں اور ان كے چھ بھائی بھی تھے، حضرت داؤد ں نے جالوت كو مار ڈالا؛ بس یهی الله كی رحمت هے كه: بارها تھوڑی جماعت الله كے حكم سے بڑی جماعت پر غالب هوئی هے۔ ۲اسی طرح اللهم وفقه، وسدِّد خطاه، وارحمه؛ اور اللهم لاتسمعه مكروھا، ولا تره شرا كے بجائے: ’’وفّقك الله للتقوی، والعمل الصالح، وسدَّد خطاك، ورحمك‘‘ اور ’’لاسمعتَ مكروھا، ولا تره شرا‘‘ كهنا۔