اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
شَیٰطِیْنِهِمْ‘‘، قَالُوْآ:’’إِنَّا مَعَكُمْ‘‘، ’’إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ‘‘؛ ’’اَللهُ یَسْتَهْزِءُ بِهِمْ‘‘﴾۱ [البقرة:۱۴]. ۵ دو جملے جن میں جملهٔ اولیٰ كا محل اعراب نه هو؛ لیكن اولیٰ كے حكم میں شریك كرنا مقصود هو تو دو جگهوں میں وصل اور پانچ جگهوں میں فصل كیا جاتا هے؛ تفصیل حسبِ ذیل هے:اصطلاحاتِ وصل وفصل بلغاء كی تصریح كے مطابق دو جگهوں پر وصل كرنا واجب هے اور پانچ جگهوں پر فصل كرنا واجب هے۔تفصیل كو سمجھنے سے پهلے چند اصطلاحات ذهن نشین كرلیں ۔ ۱ كمال اتصال: دو جملوں كے درمیان كمال اتصال (یعنی: اِتحادِ تام) هو، اس طور پر كه دوسرا جمله پهلے جملے كا (معنوی طور پر) بیان، تاكید یا بدل واقع هو، جیسے: ﴿فَوَسْوَسَ إِلَیْهِ الشَّیْطٰنُ: قَالَ ’’یٰٓاٰدَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلیٰ شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّایَبْلیٰ‘‘﴾ [طه:۱۲۰]؛ ﴿فَـ’’مَهِّلِ الْكٰفِرِیْنَ‘‘، ’’أَمْهِلْهُمْ رُوَیْدًا‘‘﴾۲ [الطارق:۱۷]. ۲ كمال انقطاع: دو جملوں كے درمیان كمال انقطاع یعنی تباینِ تام هواس طور پر كه دونوں خبر، انشاء میں مختلف هوں ، جیسے: ﴿وَصَلِّ عَلَیْهِمْ، إِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ﴾۳ [التوبة:۱۰۳]؛ یا دوجملوں كے درمیان معنوی كوئی مناسبت هی نه هو، جیسے: المَلِكُ عَادِلٌ، ۱یهاں جملهٔ اولیٰ ﴿إذَا خَلَوْا﴾ كا محل اعراب نهیں ، اور جملهٔ رابعه ﴿اَللهُ یَسْتَهْزِءُ بِهِمْ﴾ كو -بذریعهٔ واؤ-شریك كرنا بھی مقصود نهیں ؛ ورنه وصل كی صورت میں خلاف مقصود - ﴿إِنَّا مَعَكُمْ﴾ سے وصل- كا وهم هوگا؛ لهٰذا فصل واجب هے۔ تفصیل ’’شبه كمالِ انقطاع‘‘ كے حاشیه میں ملاحظه فرمالیں ۔ ۲آیتِ اولیٰ: پھر شیطان نے ان كے دل میں وسوسه ڈالا، كهنے لگا: اے آدم! كیا میں تمهیں ایسا درخت بتاؤں جسے جاوِدانی زندگی، اور وه بادشاهی حاصل هوجاتی هے جو كبھی پرانی نهیں پڑتی۔ اس میں دوسرا جمله پهلے ﴿فَوَسْوَسَ﴾ كا بیان هے۔ آیتِ ثانیه: اے پیغمبر تم ان كافرین كو ڈھیل دو! انهیں تھوڑے دنوں اپنے حال پر چھوڑ دو۔ یهاں دوسرا جمله پهلے كی تاكید بن رها هے۔ ۳(اے پیغمبر) ان كے لیے دعا كرو، یقیناً تمهاری دعا ان كے لیے سراپا تسكین هے۔