اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
ثابت هونے والے الفاظ سے اپنے كلام كو پاك ركھنے كے لیے بھی حقیقت كو چھوڑ كر مجاز كا سهارا لیتا هے، جیسے: ﴿أَوْ جَآءَ أَحَدٌ مِّنْكُمْ مِنَ الْغَآئِطِ﴾۱ [النساء:۴۳]. ۴ متكلم كے مختلف مقاصد واغراض كے حصول میں معین ثابت هوتا هے، جیسے: تعظیم، تحقیر اور هولناكی وغیره بیان كرنا، جیسے: ﴿وَاٰتُوا الْیَتٰمیٰ أَمْوَالَهُمْ﴾۲ [النساء:۲].فصل رابع: استعاره مجازِ مفرد كی دوسری قسم ’’استعاره‘‘ هے۔ اِسْتِعاره: وه مجازِ مفرد هے جس میں لفظ كو اپنے معنیٔ حقیقی كے علاوه دوسرے معنی میں استعمال كیا گیا هو مشابهت كے تعلق (مناسبت)كی وجه سے، كسی ایسے قرینے كے ساتھ جو لفظ كا معنیٔ حقیقی مراد لینے سے مانع هو، جیسے: ﴿كِتٰبٌ أَنْزَلْنٰهُ إِلَیْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ إِلَی النُّوْرِ﴾ [إبراھیم:۱]، أي: منَ الضَّلالاتِ إلی الإیْمَان؛ اور جیسے منافقین كی حالت كے بارے میں باری تعالیٰ كا فرمان هے: ﴿فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضًا﴾۳ [البقرة:۱۰]. ۱اس جگه غائط یعنی كشاده نشیبی زمین (محل) بول كر پاخانه كرنا (حال) مراد لیا هے۔ ۲آیتِ مباركه میں اس اهم فریضه كی طرف راغب كرنے كے لیے باعتبار ماكان ﴿یَتٰمٰی﴾ سے تعبیر فرمایا جو قابلِ رحم سمجھے جاتے هیں ۔ (علم البیان) اسی طرح هم ایك طالبِ علم كی تعظیم بتلانے كے لیے جو مستقبل میں عالم هوگا، یوں كهے: رأیْتُ عَالماً؛ دیكھئے اس مجاز سے اس طالبِ علم كی تعظیم اور رفعت شان معلوم هوئی هے جو حقیقت كے مطابق كلام كرنے میں مفقود هے۔ ۳ترجمه: یه كتاب هے جس كو هم نے تمهاری طرف اتاری هے تاكه تُو لوگوں كو اندھیروں (گمراهیوں ) سے اُجالے (نور) كی طرف نكالے۔ دیكھئے یهاں ظلمت ونور كا معنیٔ حقیقی تاریكی وروشنی مراد نهیں هے؛ كیوں كه كتاب، سورج اور چراغ كی طرح كوئی ایسی چیز نهیں جو مضیٔ (اُجاله كرنے والی) هو؛ یه قرینه هے كه یهاں : ظلمات (اندھیریاں ) بول كر ضلالات (گمراهیاں ) مراد لی گئیں هے۔ جس طرح ضلالات میں عدمِ اهتداء هے ظلمات میں بھی عدمِ اهتداء هے، گویا معنیٔ ضلالات كو عدمِ اهتداء میں معنیٔ ظلمات سے تشبیه دی هے اور اسی طرح ایمان كو نور كے ساتھ تشبیه دی هے اهتداء میں ۔ (علم البیان) آیتِ ثانیه: اس آیت میں نفاق كا معنی مشبه اور مستعار لهٗ هے، مرض كا معنی مشبه به اور مستعار منه هے اور لفظ (مرض) مستعار هے؛ اور وجهِ جامع افساد هے۔