اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
ادات تمنی لیت سے عدول كی حكمت هَلْ: متمنِّی، متمنّٰی كی طرف كمال توجه ظاهر كرنے كے لیے متمنّٰی كو بذریعے ھل شیٔ ممكن كی صورت میں ظاهر كرتا هے، جیسے: ﴿هَلْ إِلیٰ خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ﴾۱ [المومن:۱۱] لو: متمنّٰی كی نُدرت اور اس كے قلیل الوقوع هونے كو ظاهر كرنے كے لیے متمنّٰی كو بذریعهٔ لوْ غیر موجود چیز كی صورت میں پیش كیا جاتا هے، جیسے: ﴿لَوْ أنْزَلْنَا هٰذَا القُرْآنَ عَلیٰ جَبَلٍ لَرَأیْتَهُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْیَةِ اللهِ﴾۲ [الحشر:۲۱] لعل كے ذریعے مَرْجُو عنه كا اَیسا بُعد بیان كیا جاتا هے جس كے حصول كی امید نه كی جاسكے، جیسے: ﴿فَقُوْلاَ لَهُ قَوْلاً لَّیِّنًا، لَّعَلَّهُ یَتَذَكَّرُ أَوْ یَخْشٰی﴾۳ [طه:۴۴] ملحوظه: یهاں آسمان كے رستوں میں جاپهنچنا امرِ محال هے جو لَیْتَ كا تقاضا كرتا هے؛ لیكن اس كو امرِ ممكن، قریب الحصول بتلانے كے لیے لعل كو استعمال كیا۔(فوائد، علم المعانی) ۱وہ کافر کہیں گے: اے ہمارے پروردگار! تونے ہمیں دو مرتبہ موت دی اور دو مرتبہ زندگی دی، اب ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں ، ’’تو کیا (ہمارے دوزخ سے)نکلنے کاکوئی راستہ ہے!!!‘‘۔ یعنی افسوس! اب تو یهاں سے چھوٹ کر نکل بھاگنے کی بہ ظاہر کوئی راہ نظر نہیں آتی، ہاں ! آپ قادر ہیں کہ جہاں دو مرتبہ موت وحیات دے چکے ہیں ، تیسری مرتبہ ہم کو پھر دنیا کی طرف واپس بھیج دیں ؛ تاكه اس مرتبہ وہاں سے ہم خوب نیکیاں سمیٹ کر لائیں ۔ ایک مرتبہ کی موت سے مراد تو پیدائش سے پہلے کا وہ وقت ہے جب انسان وجود ہی میں نہیں آیاتھا، اور اُس وقت گویا مردہ تھا، اور دوسری موت سے مراد وہ موت ہے جو زندگی کے آخر میں آئی۔ ۲ دیكھیے! الله تعالیٰ كی چاهت (تمنا) تو یه تھی كه: انسان قرآنِ مجید كی عظمت كے سامنے دَب جاتا؛ لیكن مقامِ حسرت وافسوس هے كه: (عام) آدمی كے دِل پر قرآن كا كچھ اثر نه هوا! حالاں كه قرآن كی تاثیر تو اس قدر زبردست اور قوی هے كه: اگر (بالفرض) وه پهاڑ جیسی سخت چیز پر اُتارا جاتا، اور اس میں سمجھ كا ماده موجود هوتا؛ تو وه بھی متكلم كی عظمت كے سامنے دَب جاتا، اور مارے خوف كے پھٹ كر پاره پاره هوجاتا! ۳یعنی دعوت وتبلیغ اور وعظ ونصیحت كے وقت نرم، آسان، رقت انگیز اور بلند بات كهو، گو اس كے تمرّد وطغیان كو دیكھتے هوئے قبول كی امید نهیں ۔ تاهم فرعون سے اس خیال سے نرم گفتگو كرو! كه: كچھ سوچ سمجھ كر نصیحت حاصل كرلے، یا الله كے جلال وجبروت كو سن كر ڈر جائے اور فرماں برداری كی طرف جھك پڑے۔ اسی سے دُعاة ومبلغین كے لیے بهت بڑا دستور العمل معلوم هوتا هے، چناں چه دوسری جگه صاف ارشاد هے: ﴿اُدْعُ إِلیٰ سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِۃ وَالْمَوْعِظَةِۃ الْحَسَنَةَ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ أَحْسَنُ۔﴾ [نحل:۱۲۵].