اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
۲ ھَلْ صرف طلبِ تصدیق (وقوع نسبت اور لا وُقوع نسبت كو جاننے) كے لیے مستعمل هوتا هے، جیسے: ﴿هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللهِ یَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْأَرْضِ﴾۱ [فاطر:۳]؛ اس كے ساتھ كوئی معادل ذكر نهیں كیا جاتا۔ ھَلْ كی دو قسمیں هیں : هَلْ بَسِیْطَه، هَلْ مُرَكَّبَه. ھَل بَسِیْطَه: وه حرفِ استفهام هے جس كے ذریعے وجودِ شیٔ كا سوال كیا جائے، جیسے: ھَلِ الْعَنْقَآءُ مَوْجُوْدَةٌ، كیا عنقاء پرندے كا وجود هے؟۔ ھَل مُرَكَّبَه: وه حرف استفهام هے جس كے ذریعے ایك موجود چیز كی صفت كا سوال كیا جائے، جیسے: ھَلْ تَبِیْضُ الْعَنْقَآءُ، كیا عنقاء پرنده انڈے دیتا هے؟۔ ۳ بقیه ادواتِ استفهام صرف طلبِ تصور كے لیے آتے هیں ، مگر وه تصور اُن كے معانی كے اعتبار سے مختلف هوگا۔همزه اورھَلْ كے درمیان فرق همزه اور ھل كے مابین فرق مندرجهٔ ذیل هے: ۱ ھل صرف طلبِ تصدیق كے لیے آتا هے؛ لهٰذا اس كے بعد امِ متصله (وه ام جس كے بعد مفرد هو) نهیں آئے گا؛ هاں ! ام منقطعه (جس كے بعد جمله واقع هوتا هے) آسكتا هے؛ لهٰذا جب ھل كے بعد اَمِ متصله واقع هو تو اس مفرد كو جمله كی تاویل میں كرنا ضروری هوگا، جیسے: أنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ لِجَابِر: هَلْ تَزَوَّجْتَ بِكْرًا أمْ ثَیِّبًا؟۲ [البخاري] ۱كیا الله كے سوا كوئی بنانے والا هے، وه الله تم كو آسمان اور زمین سے روزی دیتا هے۔ یعنی مانتے هو كه: پیدا كرنا اور روزی كے سامان بهم پهنچا كر زنده ركھنا سب الله كے قبضه اور اختیار میں هے پھر معبودیت كا استحقاق كسی دوسرے كو كدھر سے هوگیا! جو خالق ورازق حقیقی هے وهی معبود بھی هونا چاهیے۔ ملحوظه: ھل یه طلب تصدیق (نسبت) كے دریافت كرنے كے لیے آتا هے جس كا جواب اثبات یا نفی میں آئے گا، اسی وجه سے ’’أم‘‘ متصله لا كر اس كے مُعادِل كو ذكر كرنا صحیح نهیں هے؛ چنانچه ’’ھل جاء أبوك أم أخوك‘‘ كهنا صحیح نهیں ۔ ۲یهاں ’’أم ثیبا‘‘ یه عبارت در اصل ’’بل ھل تزوَّجتَ ثیباً‘‘ كی تاویل میں هے۔