اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
۲- الف لام استغراقی: وه الف لام حقیقی هے جس سے (قرائن كی وجه سے) مدخول كی حقیقت كے تحت داخل هونے والے تمام افراد مراد هوں ، جیسے: ﴿عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَةِ﴾ [الرعد:۹]؛ ﴿إِنَّ الإِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ إِلاَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ [العصر:۲]؛ ﴿إِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ﴾۱ [البقرة:۱۹۵]. ۳- الف لام عهد ذهنی: وه لامِ حقیقی هے جس سے مدخول كی حقیقت كے افراد میں سے ایك مبهم (غیر معین) فرد مراد هو، جس كا معهود ذهن میں هو، جیسے: ﴿وَأَخَافُ أَنْ یَّأْكُلَهُ الذِّئْبُ وَأَنْتُمْ عَنْهُ غٰفِلُوْنَ٭﴾۲ [یوسف: ۱۳].فصل سادس: معرفه به اِضافت مضاف الی المعرفه: جو معرفه به ندا كے علاوه معرفه كی پانچ قسموں میں سے كسی ایك كی طرف مضاف هو۔ مسنداِلیه كو اضافت كے ساتھ معرفه لانے كی اغراضِ بلاغیه یه هیں : ۱ آیتِ اولیٰ: الله سبحانه وتعالیٰ تمام پوشیده اور ظاهری باتوں كا جاننے والا هے؛ اس آیت میں علم الٰهی كی لامحدود وسعت كا بیان هے كه: دنیا كی كوئی كھلی چھپی چیز اس سے پوشیده نهیں ، اور تمام عالم اس كے زیرِ تصرف هے۔ اسی قبیل سے باری تعالیٰ كا فرمان هے: ﴿خُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِیْفًا﴾ [النساء:۲۸] . آیتِ ثانیه: در حقیقت (تمام) انسان بڑے گھاٹے میں هیں ، سوائے ان لوگوں كے جو چار اوصاف كے جامع هوں : ۱ الله ورسول پر ایمان لائے اور ان كے وعدوں پر پورا یقین ركھے۔ ۲ اس ایمان ویقین كا اثر محض قلب ودماغ تك محدود نه رهے؛ بلكه اعضاء وجوارح میں ظاهر هو۔ ۳ محض اپنی صلاح وفلاح پر قناعت نه كرے؛ بلكه قوم وملك كے اجتماعی مفاد كو پیش نظر ركھے۔ ۴ شخصی وقومی اصلاح كے راستے میں جس قدر سختیاں اور دُشواریاں پیش آئیں یا خلاف طبع اُمور كا تحمل كرنا پڑے پورے صبر واستقامت سے تحمل كریں ۔ اس جگه ﴿إِلاَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ كااستثناء قرینه هے كه ﴿الإِنْسَانَ﴾ میں الف لام استغراق كے لیے هے۔ ۲اور مجھے (یوسف علیه السلام كی جدائی كے غم كے ساتھ) یه اندیشه بھی هے كه یوسفؑ كو بھیڑیا كھا جائے اور تم اس كی طرف سے غافل هو۔یهاں بھیڑیے كی حقیقت كے افراد میں سے ایك غیر معین فرد مراد هے؛ اور اس كو لامِ حقیقی اس لیے كها گیا؛ كیوں كه مدخول كی حقیقت اس معهود پر مشتمل هے۔