اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
بسم الله الرحمٰن الرحیمپیش لفظ الحَمْدُ للهِ الذِيْ نَزَّل عَلیٰ عَبْدِه الفُرْقَانَ، والصَّلاةُ والسَّلامُ عَلیٰ فَصِیْح البَیَانِ، وعَلیٰ آلِهِ وَأصْحَابِه الذِیْنَ لهُمْ عَلیٰ جَمِیْعِ الأمَّة اِمْتِنَانٌ. دین اسلام میں علوم وفنون کی قدر وقیمت تب معتبر ہوتی ہے جب کہ اس کا مرجع قرآن وحدیث ہو، علوم عالیہ تو فی نفسہٖ مقصود بالذات ہے، اور علوم آلیہ کا اصل مقصود قرآن فہمی اور حدیث دانی ہے؛ ان فنون میں سے اہم ترین ،شیریں اور حلاوت سے لبریز ’’علم بلاغت‘‘ ہے۔ علم بلاغت اپنے آغوش میں کئی علوم لیے ہوئے ہے؛ اس لیے کسی کی فصاحت وبلاغت کے اعتراف کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ: کئی علوم میں اُس کی مہارت وحذاقت کو تسلیم کرلیا گیا۔ نزولِ قرآن کے زمانے میں عربوں کو اپنی فصاحت وبلاغت پر بڑا نازتھا، خطابت وشاعری اُن کے معاشرے کی روحِ رواں تھی، عربی شعر وادب کا فطری ذوق بچے بچے میں سمایا ہوا تھا، اور بڑے بڑے کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے، اس میدان میں کبھی ہار ماننے کے لیے تیار ہی نہ تھے؛ بلکہ اس تعلق سے ہر چیلنج کو قبول کرنے کے لیے ہمہ وقت مستعد رہتے تھے۔ اسی ماحول میں قرآن کریم اُن کو ڈنکے کی چوٹ اور ببانگ دُہل دعوت دیتا ہے کہ: آؤ! اور اپنی ہمت آزمائی کرو! چناں چہ پہلے ان کو للکار کر کہتا ہے: ﴿أمْ یَقُوْلُوْنَ تَقَوَّلَهُ، بَلْ لایُؤْمِنُوْنَ فَلْیَأْتُوْا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِهِ إنْ كَانُوْا صٰدِقِیْنَ﴾. [الطور:۳۴] اس آیت سے سب پر سکوت چھاجاتا ہے اور کوئی فصاحت وبلاغت کا دعوے دار میدان میں نہیں آتا ہے، قرآن کریم پھر ان کی غیرت کو جھنجھوڑتا ہے اور یہ اعلان