اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
۸ كلام میں حلاوت پیدا كرنے كے لیے شروع كے فقرے آخر كے فقروں سے چھوٹے لائے جاتے هیں ، جیسے: ﴿خُذُوْهُ فَغُلُّوْه ثُمَّ الْجَحِیْمَ صَلُّوْه ثُمَّ فِيْ سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوْه﴾ [الحاقة:۳۰]. ۹ حسنِ ظاهری كے ساتھ حسنِ معنوی كی آمیزش كے لیے چھوٹی آیتوں كے ساتھ ایك لمبی آیت لائی جاتی هے، جیسے سورهٔ مزمل میں چھوٹی آیتیں هیں ، مگر آخری آیت بهت لمبی هے؛ اسی طرح سورهٔ مدثّر میں بھی هے۔حسنِ ظاهری اور حسنِ معنوی حسنِ كلام كی دو قسمیں هیں : حسنِ ظاهری، حسنِ معنوی: حسنِ ظاهری: وه حسن هے جو وزن كی یكسانیت اور قافیه كی رعایت سے پیدا هوتا هے۔ حسنِ معنوی: وه حسن هے جو تین باتوں سے پیدا هوتا هے: ۱ زبان سے كلام كی ادائیگی كا آسان هونا ۲ كلام كا اپنے فطری انداز میں رواں هونا ۳ شروع سے اخیر تك كلام كا ایك انداز میں هونا۔ اب سمجھیے! كه جب قاریٔ قرآن چھوٹی چھوٹی آیتوں كے حسنِ ظاهری سے محظوظ هورها هوتا هے، اور اسی انداز كی آیت كا منتظر رهتا هے كه اچانك حسنِ معنوی سے بھرپور، علم وحكمت سے لبریز لمبی آیت لائی جاتی هے، جس سے كلام كا حسن دوبالا هوجاتا هے، اور تدبر كرنے والا ایسے مواقع میں حسنِ معنوی كو زیاده پسند كرتا هے۔ ۱۰ قرآنِ مجید میں نئے اوزان وقوافی كو استعمال فرمایا هے؛ تاكه یه نِرالے لذت بخش اوزان وقوافی نبیٔ اُمی ﷺ كی رسالت پر واضح دلیل ثابت هوں ؛ جب كه اكثر سورتوں میں كلام كو وزن وقافیه كی رعایت كیے بغیر بڑے بڑے خطباء كی تقاریر اور ناموَر حكیموں كی كهاوتوں كے طرز پر پیش كیا هے، جیساكه حدیثِ امّ زرع كے قوافی اور اس كا اندازِ بیان هے؛ نیز اكثر مقامات میں عربوں كے رسائل كے نهج پر آپسی عام گفتگو كا انداز