اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
اِطلاق اِطلاق: كلام میں حكم (مسند اور مسند الیه) كے علاوه دیگر قیودات كا تذكره نه كرنا مختلف اغراض سے هوتا هے: للإخْفَاء، لِعَدَم عِلْمِه، لِیَذْھَبَ السَّامِعُ كُلَّ مَذْهَب. ۱ مخصوص مخاطب كے علاوه دیگر حاضرین، فعل كے زمانه، مكان یا محلِ وقوع وغیره پر مطلع نه هوجائیں ۲ متكلم كو قیودات كا علم هی نه هو، ۳ سامع كو اس مطلق حكم سے هر طرح كی چھوٹ اور مكمل گنجائش مِلے تاكه وه هر ممكن مطلب كو مراد لے سكے، جیسے: ﴿رَبِّيَ الَّذِيْ یُحْیِيْ وَیُمِیْتُ﴾۱ [البقرة:۲۰۸]تقیید تقیید: كلام میں رُكنین كے علاوه مسند الیه كے متعلق كسی قید كو، یا مسند كے متعلق قید كو، یا دونوں هی سے متعلق كسی قید كو ذكر كرنا ’’تقیید‘‘ كهلاتا هے؛ اور اس كلام كو ’’مقید‘‘ كها جاتا هے۔ كلام كو قیودات سے مقید كرنے كی بنیادی غرضیں دو هیں : فَوْتُ الفَائِدَة المقْصُوْدَة عِنْد عَدَم ذِكْرِه، كَوْنُ الكَلامِ كَاذِبا عِنْدَ عَدَمِ ذِكْرِه. ۱ قید كو ذكر نه كرنے پر فائدهٔ مقصوده كا فوت هوجانا، جیسے: ﴿جَعَلَ اللهُ الْكَعْبَةَ ’’الْبَیْتَ الْحَرَامَ‘‘ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ﴾۲ [المائدة: ۹۷]. ۲ قید ذكر نه كرنے سے كلام جھوٹا هوجائے، جیسے: ﴿وَمَاخَلَقْنَا السَّمَآءَ وَالْأَرْضَ وَمَا ۱یعنی میرا پروردگار تو وه هے جو هر زمانے هر مكان میں هر فرد كو، هر حال میں زنده كرنے اور مارنے پر مطلق قادر هے؛ دیكھیے! یهاں رب كی صفت اِحیاء واِماتت كو مطلق ركھا هے۔(علم المعانی) ۲دیكھیے! آیت میں كعبه شریف كی عظمت وحرمت بیان كرنا مقصود هے؛ لهٰذا ﴿الْبَیْت الْحَرَام﴾ بدل كو ذكر نه كرنا، فائده مقصوده كو فوت كرنا هوگا۔