اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
تعقیدِ معنوی: كلام سے مراد لیے هوئے معانیٔ مجازیه یا معانیٔ كنائیه سمجھنے میں پیچیدگی هو، اس طور پر كه: متكلم معنیٔ مجازی یا معنیٔ كنائی كو ادا كرنے كے لیے عرب كے عرف وعادت اور ان كے طریقهٔ تعبیر كے خلاف ایسی تعبیر لائے جس میں ذهن معنیٔ اصلی سے معنیٔ مجازی یا كنائی كی طرف منتقل نه هو، جیسے: جاسوس كا معنیٰ ادا كرنے كے لیے مستعمل لفظ عَیْنٌ كے بجائے لفظِ لِسَانٌ كو ذكر كرنا اور كهنا: نَشَرَ الْمَلِكُ أَلْسِنَتَهُ فِي الْمَدِیْنَةِ۱؛ اسی طرح جُمودِ عین (آنكھوں كا خشك هونا) سے رنج وملال كا كنایه كرنے كے بجائے مسرت وشادمانی كا كنایه كرنا، عرب كے استعمال اور ان كے عرف وعادت كے خلاف هے۔ فصاحتِ متكلم: عمده تعبیرات اور بُلند اسالیب كے پڑھنے، منظوم ومنثور كلام كو رٹنے اور كتاب الله اور حدیث رسول الله كے حفظ كرنے اور سمجھنے سے ایسا ملكه پیدا هو جس كی وجه سے متكلم اپنے مقصود ومضمون كو فصیح الفاظ۲ میں ادا كرنے پر بخوبی قادر هو، خواه كلام جس مضمون سے بھی متعلق هو۔بلاغت بلاغت: (لغوی معنی) وصول اور انتهاء كے هے، جیسے: ﴿فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَیْنِهِمَا نَسِیَا حُوْتَهُمَا﴾ [الكهف:۶۱]؛ ﴿إِنَّ اللهَ بَالِغُ أَمْرِهِ﴾۳ [الطلاق:۳] بلاغت: (اصطلاحی تعریف) اُن ادبی قواعد كو جاننا هے جس كے ذریعه متكلم عظیم واضح معنی كو ایسی فصیح عبارت میں ادا كرنے پر قادر هو جو مقتضائے حال كے مطابق هو، محسِّناتِ ذاتیه ۱لفظ عین بول كر جاسوس مراد لینا تو مشهور هے اور قرینه بھی هے كه جاسوسی كرنے والا آنكھ سے مدد لیتا هے؛ لیكن زبان بول كر جاسوس مراد لینا اهل عرب كے محاوره میں مستعمل نهیں ۔ ۲ فصیح الفاظ كا مطلب: یه هے كه وه الفاظ مذكوره عیوب (تنافر حروف وكلمات، غرابت، مخالفتِ قیاسِ لغوی، ضعفِ تالیف اور تعقید كی دو نوں قسموں ) سے پاك هوں ۔ ۳ آیتِ اولیٰ: پھر جب پهنچے دونوں دریا كے مِلاپ تك، بھول گئے اپنی مچھلی۔ آیت:۲-تحقیق الله پورا كر لیتا هے اپنا كام، (یعنی: اس كو اس كی انتهاء تك پهنچا دیتا هے)۔