اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
فصل اوّل: حقیقت ومجاز حقیقت: وه لفظ هے جو اُس معنی میں استعمال كیا گیا هو جس معنی پر دلالت كرنے كے لیے واضع نے اس كو وضع كیا هے،جیسے: ﴿هُوَ الَّذِيْ أَنْشَأَكُمْ مِّنْ نَفْسٍ وَّاحِدَةٍ﴾۱ [أنعام: ۹۸] مجاز: وه لفظ هے جو كسی عَلاقه كی وجه سے معنیٔ غیر موضو ع لهٗ میں مستعمل هو كسی علاقه كی وجه سے ایسے قرینے كے ساتھ جو اس لفظ كے حقیقی معنی مراد لینے سے روكتا هو ۲۔ علاقه: معنیٔ حقیقی اور معنیٔ مجازی كے درمیان كی وه مناسبت (تعلق) هے جو ذهن كو معنیٔ حقیقی سے معنیٔ مجازی كی طرف منتقل هونے كو لازم كرے؛ چاهے وه مناسبت مشابهت كی هو یا غیر مشابهت كی۔ قرینه: وه شیٔ هے جو ذهن كو لفظ كے حقیقی معنی مراد لینے سے روكتی هو؛ خواه وه شیٔ لفظوں میں موجود هو (قرینهٔ لفظیه) یا لفظوں میں موجود نه هو بلكه ایك حالت هو (قرینهٔ حالیه) جیسے: ﴿إِنِّيْ أَرٰنِيْ أَعْصِرُ خَمْرًا﴾۳ [یوسف:۳۶]. ۱وهی ذات هے جس نے تم سب كو ایك شخص (حضرت آدم علیه السلام)سے پیدا كیا۔ اس آیتِ كریمه كے تمام كلمات ان هی معانی پر دلالت كرتے هیں جن كے لیے واضعین نے وضع كیا هے۔ اسی طرح رَأَیْتُ الْأَسَدَ یَفْتَرِسُ الْغَنَمَ؛میں نے شیر كو دیكھا جو بكریوں كو پھاڑ رها تھا؛ یهاں لفظِ اسد اپنے معنیٔ موضوع لهٗ یعنی معنیٔ اسد كے لیے مستعمل هے۔ ۲مجاز: معنیٔ مرادی كی تعبیر كے تین طریقوں (تشبیه، مجاز اور كنایه) میں سے ایك طریقه هے، اصطلاح میں مجاز: وه لفظ هے جو باهم گفتگو كرنے والوں كے محاورے كے اعتبار سے اپنے معنیٔ موضوع لهٗ كے علاوه كسی ایسے معنی پر دلالت كرے جن دو معنوں (معنیٔ موضوع لهٗ اور معنیٔ مجازی) كے درمیان علاقه وتعلق هو، ساتھ هی كوئی ایسا قرینه بھی هو جو معنیٔ موضوع لهٗ كو مراد لینے سے روكتا بھی هو۔ ملحوظه: مجاز اور كذب میں فرق یه هے كه: ۱ مجاز میں لفظ سے ظاهر كے خلاف معنی مراد لینے پر قرینه هوتا هے جو لفظ سے اس كے معنیٔ حقیقی كو مراد لینے سے روكتا هے جب كه كذب (جھوٹ) میں خلافِ ظاهر معنی مراد لینے پر كوئی قرینه نهیں هوتا؛ بلكه جھوٹا شخص ظاهری معنی كی ترویج میں اور حقیقت كو چھپانے میں اپنی مقدور بھر كوشش صرف كر دیتا هے۔ ۲ جھوٹ میں كوئی (مناسب) تاویل (مطلب اور مراد) نهیں هوتی جب كه مجاز كی بنیاد هی كسی مطلب پر هوتی هے۔ (علم البیان) ۳دونوجوان قیدیوں میں سے ایك نے (ایك دن یوسف علیه السلام سے) كها كه: ’’میں (خواب میں ) اپنے