اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
۱۲ كون المقدم محط الانكار: مقدم هونے والے مسند كا محلِ انكار میں هونا ظاهر كرنا، جیسے: ﴿أَرَاغِبٌ أَنْتَ عَنْ اٰلِهَتِيْ یٰٓإِبْرٰهِیْمُ﴾ [مریم:۴۶]؛ ’’أَفَعَمْیَاوَانِ‘‘ أَنْتُمَا! أَلَسْتُمَا تُبْصِرَانِهِ!۱. [مشكوٰة المصابیح] ۱۳ سلوك سبیل الترقي: چند مسندوں کو ذکر کرتے وقت فطری تقاضے كے مطابق نیچے سے اوپر كی طرف جانا، جیسے: اوّلاً عام كو ذكر كرنا بعد ازاں خاص كو، جیسے: ﴿وَاذْكُرْ فِيْ الْكِتٰبِ إِبْرٰهِیْمَ٭ إنَّهُ كَانَ صِدِّیْقًا نَبِیًّا﴾۲ [مریم:۴۱]. تنبیه: مسند الیه ومسند میں سے هر ایك كی تقدیم دوسرے كی تاخیر كو بھی مستلزم هے؛ لهٰذا مسند ومسند الیه كی تاخیر كے دواعی بھی بعینهٖ وهی هوں گے جو تقدیم میں گذر چكے، مثلا مراعات ترتیب واقعی: جیسے:﴿إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَیْرَانِ الْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ [البقرة:۱۸۰]. یهاں اَقارب کو والدین سے مؤخر کرنا ترتیبِ واقعی کی رعایت میں ہے۔فصل ثالث: ترتیب الفعل ومعمولاته فعل اور اس کے معمولات كی ترتیب میں عامل كو معمول پر،نیز معمولات میں عمده كو فضله پر مقدّم كیا جائے گا، چناں چه ترتیب یوں هوگی: فعل، فاعل، مفعول به، مطلق، ظرف، مفعول له ۱ مثالِ اوّل: یهاں ابراھیم علیہ السلام كے والد اظهار تعجب كے ساتھ انكار بھی كر رهے تھے كه: اے ابراھیم تو اپنی بداعتقادی اور وعظ ونصیحت كو رهنے دے؛ ورنه تجھ كو كچھ اور سننا پڑے گا۔ مثالِ ثانی: آپ ﷺ نے حضرت ام سلمهؓ اور حضرت میمونهؓ كو فرمایا تھا كه: عبدالله بن ام مكتوم تو نابینا هے، وه تمھیں نهیں دیكھتے! لیكن كیا تم دونوں بھی نابینا هیں ؟ یعنی: تم دونوں تو نابینا نهیں ہوں ؛ لہٰذا ان سے پرده كرو!(مشكوٰة، باب النظر إلی المخطوبة وبیان العورات) ۲صدیق كے معنی هیں : بهت زیاده سچ كهنے والا جو اپنی بات كو عمل سے سچ كر دِكھاوے،یا وه راست باز پاك طینت جس كے قلب میں سچائی كو قبول كرنے كی نهایت اعلیٰ واكمل استعداد موجود هو، اور جو بات خدا كی طرف سے پهنچے بلاتوقُّف اس كے دِل میں اُتر جائے، شك وتردد كی گنجائش هی نه رهے؛ ابراهیم علیه السلام هر دو معنیٰ کے لحاط سے صدیق تھے، اور چونكه صدیقیت كے لیے نُبوت لازم نهیں ، جب كه نبوت كے لیے صدیقیت هونا لازمی هے؛ لهٰذا ترقی فرماتے هوئے آگے (صدیقا) كے ساتھ (نبیا) بھی فرمایا۔ اور جیسے: هٰذَا الْكَلامُ صَحِیْحٌ فَصِیْحٌ بَلِیْغٌ؛ ونوْقض بقوله تعالیٰ: ﴿وكانَ رَسُوْلا نَبِیًّا﴾، والجوابُ: أنَّ ﴿نَبِیًّا﴾ حَالٌ، لا صِفَة، أي: وكانَ رَسُوْلا حالَ كَوْنه نَیِبا. (الإتقان)