اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
ضمیمه: سرقاتِ شعریه متكلم اپنے مضمون كو پختہ كرنے اور اس میں حسن وجمال كو پیدا كرنے كے لیے قرآن وحدیث سے یا كسی دوسرے ناظم وناثر كے كلام سے اقتباس كرتا ہے، اور وہ دو قسموں پر ہے: قسمِ اول: بعض صورتوں میں كلام كی بلاغت اور پختگی میں اور اضافہ ہو جاتا ہے، جیسے: اقتباس، استشہاد، تضمین اور تلویح میں ہوتا ہے۔ قسمِ ثانی: بعضے صورتوں میں متكلم كا كلام كسی جگہ ابلغ، اور كسی جگہ غیر ممدوح ہوجاتا ہے تو كسی جگہ مذموم ہوكر رہ جاتا ہے، جیسے: المام وسلخ، اِغارہ ومسخ، نسخ وانتحال، عقد اور حل میں ہوتا ہے۔ ملحوظہ: قسمِ ثانی كی اقسام كو ’’سرقات شعریہ‘‘ سے تعبیر كیا جاتا ہے؛ طَرْدًا للبَاب اخیر میں اس كو بھی ذكر كر لیا گیا ہے۔ تعریفات كے بعد تمام كو ایك نقشہ میں اخیری صفحه پر ملاحظہ فرمائیں :سَرَقاتِ شعریه علمِ بدیع میں سرقاتِ شعریہ سے بھی بحث ہوتی ہے؛ یہاں بھی طرداً للباب اس كو ذكر كیا جاتا ہے۔ سرقۂ كلام: ۱نسخ وانتحال، ۲ مسخ واِغارہ، ۳ سلخ واِلمام۔ سَرِقَہ: یہ ہے كہ كوئی ناظم یا ناثر غیر كے نظم ونثر كو بعینہٖ یا اس كے معنی لے كر اپنی طرف منسوب كردے۔ یہ فعل كبھی ممدوح ہوتا ہے تو كبھی مذموم بھی شمار كیا جاتا ہے۔ مذموم سرقہ كلام كی تین صورتیں ہیں :نسخ وانتحال، مسخ واِغارہ، سلخ واِلمام۔ ۱ نَسْخ واِنْتِحَال: ایك شاعر كا دوسرے شاعر كے: ۱ جمله الفاظ مع معنی كو، ۲ یابیشتر الفاظ مع معنیٰ كو نظمِ كلام میں تغیر كیے بغیر اپنی جانب منسوب كردینا، جیسے: عبداللہ بن زَبیر نے مُعْن بن اَوس مزنی كے مندرجۂ ذیل اشعار كو حضرت امیر معاویہؓ كے سامنے مِن وعَن پڑھ كر اپنی طرف منسوب كرلیا تھا: