اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
مسند الیه كو علم كی شكل میں معرفه لائے جانے كے چند اسباب یه هیں : إحْضَار المعْنیٰ فِي ذِهْن السَّامِع بِاسْمِه الخَاصِّ، التَّعْظِیْم، الإهَانَة والتَّحْقِیْر، الاسْتِلْذَاذ، لبَیَان الاخْتِصَاص.۔ ۱ إحضار المعنی في ذھن السامع باسمه الخاص: مسند الیه كو اس كے خاص نام كے ساتھ مخاطب كے ذهن میں مستحضر كرنا مقصود هو، تاكه وه دوسروں سے ممتاز هو جائے، جیسے:﴿وَإِذْ یَرْفَعُ ’’اِبْرٰهِیْمُ‘‘ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ ’’وَاِسْمٰعِیْلُ‘‘﴾۱ [البقرة:۱۲۷]. ۲ التعظیم: عظَمت ظاهر كرنا مقصود هو جب كه وه مدح، كنیت یا لقب پر مشتمل هو اور اس میں عظمت كا معنی پایا جاتا هو، جیسے: ﴿كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلاًّ لِّبَنِيْ إِسْرَآءِیْلَ إِلاَّ مَا حَرَّمَ إِسْرَاءِیْلُ عَلٰی نَفْسِهِ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰةُ﴾ [آل عمران:۹۳]؛ ﴿مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ﴾۲ [الفتح:۲۹]. ۳ الإھانة والتحقیر: حقارت ظاهر كرنا مقصود هو جب كه اس میں حقارت كا معنی پایا جاتا هو، جیسے: ﴿تَبَّتْ یَدَآ أَبِيْ لَهَبٍ وَّتَبَّ﴾۳ [أبي لھب:۱]. ۱اور جب ابراهیم اور اسماعیل علیهما السلام بیت الله كی بنیادیں اونچی كر رهے تھے۔ یهاں ابراهیم واسماعیل مسندالیه كو خاص نام سے ذكر كیا هے، تاكه دیگر حضرات سے ممتاز هوجائیں ۔ ۲ مثالِ اول: بنی اسرائیل كے لیے سب چیزیں حلال تھیں مگر وه چیز (اونٹ كا گوشت اور دودھ) جو اسرائیل (الله كے بندے یعقوبؑ) نے تورات كے نزول سے پهلے (عرق النساء بیماری كی وجه سے بطور نذر) اپنے اوپر حرام كر لی تھی۔ یهاں ﴿إِسْرَاءِیْل﴾ بمعنیٰ: عبدالله، حضرت یعقوب كی عظمت ظاهر كرنے كے لیے استعمال فرمایا هے۔ مثالِ ثانی: اس میں باری تعالیٰ نے محمد ﷺ كی عظمتِ شان كو بیان كیا هے كه: محمد ﷺ (جن كی تعریف الله سبحانه وتعالیٰ اور ملائكه كرتے هیں وه) تو الله كے رسول هیں ؛ چاهے تم مانو، یا نه مانو! ۳ابولهب (انگار والا) كے دونوں هاتھ ٹوٹ چكے؛ ابو لهب كا نام عبدالعزی بن عبدالمطلب هے، آنحضرت ﷺ كا چچا تھا؛ لیكن اپنے كفر وشقاوت كی وجه حضور ﷺ كا شدید ترین دشمن تھا؛ اس كے هاتھ ٹوٹ چكے، یعنی: اس كی سرداری همیشه كے لیے مٹ گئی، اس كے اعمال اَكارت هوئے، اس كا زور ٹوٹ گیا اور خود تباهی كے گڑھے میں پهنچ چكا۔اس آیت میں یه كنایه هے كه: ابولهب انگار والی جهنم میں جائے گا۔