اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
۲ طُمانِینت: مخاطب كو اِطمینان وبھروسه دینے كے لیے ضمیرِ تكلم كو ذكر كرنا، جیسے: ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحٰفِظُوْنَ﴾ [الحجر:۹]؛ وَقَالَ عَلَیْهِ السَّلامُ: ’’أنَا‘‘ النَّبِيُّ لاكَذِبْ، ’’أنَا‘‘ ابْنُ عَبْدِ المُطَّلِبْ۱. ۳ كون المقام للخطاب: خطاب كا مَوقع هونا، جیسے: ﴿وَلَوْ تَرٰٓی إِذْ فَزِعُوْا فَلَا فَوْتَ وَأُخِذُوْا مِنْ مَّكَانٍ قَرِیْبٍ٭﴾۲ [سبا: ۵۱] ملحوظه: عموماً متكلم معین مخاطب سے بات كرتا هے؛ لیكن كبھی مستقبل میں آنے والے هر مخاطب بننے كی صلاحیت ركھنے والے كو ملحوظ ركھتے هوئے عام خطاب كرنا، جیسے: ﴿وَإِذَا رَأَیْتَ ثَمَّ رَأَیْتَ نَعِیْمًا وَّمُلْكًا كَبِیْرًا٭﴾ [الدھر:۲۰]؛ اور آپ ﷺكا فرمان: ’’یَخْرُجُ (أيْ:الدَّجَّالُ) مَا بَیْنَ الشَّامِ وَالعِرَاقِ، فَعَاثَ یَمِیْنًا وَشِمَالًا؛ یَا عِبَادَ اللهِ! اِلْبَثُوْا.۳ [الجامع الترمذي] ۴ كون المقام للغیبة مع الاختصار لتقدیم ذكره: مقامِ غیبوبت میں (مرجع كے مذكور هونے كی حالت میں ) اختصار ملحوظ هو، جیسے: ﴿فَاصْبِرُوْا حَتّٰی یَحْكُمَ لهٰذا ضمیر تكلم ﴿أنَا﴾ سے تعبیر فرمائی۔ (علم المعانی) ۱ یهاں نزولِ قرآن اور اس كی حفاظت كے بابت مؤمنین كے دلوں میں اعتماد وبھروسه ركھوانے كے لیے ضمیر تكلم ﴿إنَّا﴾ كا اُسلوب اختیار كیا؛ نیز حدیثِ رسول الله ﷺ: میں نبی هوں ، یه كوئی خلافِ واقع بات نهیں ، میں عبد المطلب كا بیٹا هوں ؛ چونكه كفار میں یه بات مشهور تھی كه: عبدالمطلب كی اولاد میں ایك شخص پیدا هوگا جس سے لوگوں كو هدایت هوگی اور وه خاتم النبیین هوں گے، اس وجه سے آپ ﷺ نے كفار كو یه مشهور چیز یاد دِلائی؛ یعنی: الله كی مدد ضرور آئے گی! آپ حضرات بالكل مطمئن رهیں ۔ (بخاری، شمائل ترمذی) ۲ (اے پیغمبر! تمھیں اُن كی حالت عجیب وغریب نظر آئےگی) اگر تم وه منظر دیكھو، جب یه گھبرائے پھرتے هوں گے! اور بھاگ نكلنے كا كوئی راسته نهیں هوگا، اور انھیں قریب هی سے پكڑلیا جائے گا۔(علم المعانی) ۳مثال اول: (جنت كا حال كیا كها جائے!) جب تم وه (ایك ادنیٰ درجے كے جنتی كو نصیب هونے والی) جگه دیكھوگے تو تمهیں نعمتوں كا ایك جهاں اور ایك بڑی سلطنت نظر آئے گی! یه بات اِس قدر واضح هوگی جو كسی سے مخفی نه هوگی كه كسی مخصوص كو نظر آئے اور دوسرے كو نهیں ! لهٰذا خطاب میں عمومیت هے۔مثالِ ثانی: قربِ قیامت میں دجال سے مقابله كرنے والے (مستقبل میں آنے والے) مسلمانوں سے آپ ﷺ نے خطاب فرماتے هوئے اِرشاد فرمایا: ’’اَے الله كے بندو! جم جاؤ! ڈٹ كر اِس كا مقابله كرو!‘‘۔ (ترمذي، في فتنة الدجال)