اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
۲تحقیق واِثبات: یعنی ثابت كرنا اور منوانا، جیسے: ﴿أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ٭ وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ٭﴾ [ألم نشرح:۱،۲]؛﴿أَلَمْ یَجْعَلْ كَیْدَهُمْ فِيْ تَضْلِیْلٍ﴾۱ [الفیل:۲] ۱۲ تهكُّم: مخاطب كی تحقیر كرنا اور مذاق اڑانا، جیسے: ﴿قَالُوْا یٰشُعَیْبُ أَصَلوٰتُكَ تَأْمُرُكَ أَنْ نَّتْرُكَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤنَآ أَوْ أَنْ نَّفْعَلَ فِيْ أَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤا﴾۲ [ھود: ۸۷]. ۱۳ اِستِبطاء: كسی كام كا دیر سے هونا سمجھنا،جیسے: ﴿أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا یَأْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهُٗ: ’’مَتیٰ نَصْرُ اللهِ‘‘﴾۳ [البقرة: ۲۱۴]. ۱۴ استبعاد وتعجیب: استفهام سے كبھی استبعاد مراد هوتا هے، یعنی مستفهم عنه كو ناممكن اور خارج از اِمكان بتلانا، جیسے: ﴿فَقَالَ الْكٰفِرُوْنَ هٰذَا شَيْءٌ عَجِیْبٌ٭ءَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا ذٰلِكَ رَجْعٌ بَعِیْدٌ٭﴾۴[قٓ:۲]؛ ﴿كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللهِ وَكُنْتُمْ ۱ آیتِ اولیٰ: كیا هم نے تیرا سینه نهیں كھول دیا!؛ آیتِ ثانیه: كیا تیرے پروردگار نے هاتھی والوں كی كُل تدبیروں (چالوں ) كو بے اثر وبےكار نهیں كیا؟۔ اس جیسی آیات میں تقریر بمعنیٰ تحقیق واثبات كی غرض هوتی هے۔ اور تحقیقی بات كو استفهامی انداز میں پیش كرنے كا مقصد مخاطب كو تدُّبر كرنے پر اُبھارنا اور متنبه كرنا هوتا هے۔ (علم المعانی) ۲ كیا تیری نماز پڑھنے نے تجھ كو یه سكھلایا كه هم چھوڑ دیں ان معبودوں كو جن كو همارے باپ دادا پوجتے رهے۔ یعنی: حضرت شعیب علیه السلام كو لوگ -بطور استهزاء وتمسخر- یه كهتے تھے: بس زیاده بزرگ نه بنئے! كیا ساری قوم میں ایك آپ هی بڑے عقل مند، باوقار اور نیك چلن ره گئے هیں ؟ اور همارے بزرگ سب جاهل اور احمق هی رهے!۔ (علم المعانی، فوائد عثمانی) ۳صحابهٔ كرام سے خطاب هے كه: كیا تم كو اس بات كی طمع هے كه بلا آزمائش جنت میں داخل هوجاؤ حالاں كه الله كی سنت تو یه هے كه: اپنے بندوں كو بڑی سخت آزمائش میں مبتلا كرتا هے، جیسے اگلی امتوں كو ایذائیں پیش آئیں كه: ان كو فقر فاقه ومرض اور خوفِ كفار اس درجه پیش آئے كه مجبور اور عاجز هوكر خود نبی (جو الله كو -اپنی امت كے بالمقابل- بخوبی جانتے تھے اور الله كے وعدوں پر مكمل بھروسه ركھتے تھے) اور اس كی امت بھی بول اٹھی كه: الله نے جس مدد اور اعانت كا وعده فرمایا تھا، وه كب آئے گی! (گویا انهوں نے مدت عذاب اور نصرت الٰهی كو بهت لمبا گمان كیا)۔ یعنی: بمقتضائے بشریت (جس میں كوئی الزام ان پر نهیں ) پریشانی كی حالت میں مایوسانه كلمات سرزد هونے لگے۔(فوائد، علم المعانی) ۴كفار ومشركین بعث بعد الموت كو مستبعد سمجھتے تھے اور اس كے وقوع كے سخت منكر تھے، چنانچه انهوں نے اس كو بصیغهٔ استفهام تعبیر كر كے اس كا استبعاد ظاهر كیا۔(علم المعانی)