اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
۹ توبیخ: ڈانٹ ڈپٹ اور اِظهارِ ناراضگی كرنا، جیسے: ﴿أَلَیْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ﴾۱ [الزمر: ۳۶] ۱۰ تعجب: یعنی كسی چیز پر اظهارِ حیرت كرنا، جیسے: ﴿قَالَتْ یٰوَیْلَتیٰٓ ءَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوْزٌ وَّهٰذَا بَعْلِيْ شَیْخاً إِنَّ هٰذَا لَشَيْءٌ عَجِیْبٌ٭﴾۲ [ھود:۷۲] ۱۱ تقریر: اس كے دو مطلب هیں : طلب اِقرار، تحقیق واِثبات۔ ۱ طلب اِقرار: یعنی گناه وجرم كا اعتراف كرانا، جیسے: ﴿قَالُوْآ ءَأَنْتَ فَعَلْتَ هٰذَا بِاٰلِهَتِنَا یٰٓإِبْرٰهِیْم٭﴾۳ [الأنبیاء:۶۲]۔؛ ﴿ءَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَأَمِّيَ إِلٰهَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللهِ﴾ [المائدۃة:۱۱۶] ۱﴿ضَرَبَ الله مَثَلاً رَّجُلاً فِیْهِ شُرَكَآءُ مُتَشٰكِسُوْنَ وَرَجُلاً سَلَمًا لِّرَجُلٍ، ھَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلاً؟﴾ [الزمر:۲۹] میں شرك كا رد اور مشركین كا جهل بیان كیا گیا تھا، اس پر مشركین پیغمبر كو ڈراتے تھے كه: دیكھو تم هماری دیوتاؤں كی توهین كر كے ان كو غصه نه دِلاؤ، كهیں تم كو (مُعاذالله) بالكل خبطی اور پاگل نه بنا دیں ۔ اس كا جواب دیا گیا كه: جو شخص ایك زبردست خدا كا بنده بن چكا، اُسے ان عاجز اور بے بس خداؤں سے كیا ڈر هوسكتا هے؟ كیا اُس عزیز ومنتقم كی امداد وحمایت اس كو كافی نهیں !؛ اس آیت میں استفهامی اُسلوب اختیار فرما كر مشركین كو ڈانٹ پلائی هے؛ یه بھی ان مشركین كا خبط وضلال اور مستقل گمراهی هے كه خدائے واحد كے پرستار كو اس طرح كی گیدڑ بھبكیوں سے خوف زده كرنا چاهے۔ (فوائد عثمانی) بزیادة ۲ابراهیم كا ایك بیٹا هاجره كے بطن سے پهلے هی موجود تھا، ساره كو تمنا تھی كه مجھے بھی بیٹا ملے؛ مگر اب بوڑھی هوكر مایوس هوچكی تھی -كهتے هیں كه: ساره كی عمر اس وقت ننانوے سال تھی اور حضرت ابراهیم سَو یا اس سے متجاوز تھے-اس وقت یه بشارت ملی، اس پر حضرت ساره بول پڑی: ارے كیا مَیں بچه جنوں گی (یعنی اس عمر میں !)؛ ایسا هوا تو بڑی انوكھی اور عجیب وغریب بات هوگی؛ حضرت ساره كے اسی تعجب كو باری تعالیٰ نے دوسری جگه بیان فرمایا هے: ﴿أَتَعْجَبِیْنَ مِنْ أَمْرِ اللهِ﴾ (علم المعانی، فوائد)بزیادة ۳مشركین نے حضرت ابراهیم علیه السلام سے پوچھا: اے ابراهیم! كیا همارے معبودوں كے ساتھ تُو نے یه (برتاؤ) كیا هے؟ ﴿قَالُوْا فَأْتُوْا بِهِ عَلٰی أَعْیُنِ النَّاسِ﴾ یعنی: ’’اس كو بُلا كر بَرمَلا مجمع عام میں بیان (اقرار) لیا جائے‘‘، تاكه معامله كو سب لوگ دیكھ كر اور خود اس كی باتیں سن كر گواه رهیں كه: جو سزا اس كو قوم كی طرف سے دی جائے گی بے شك وه اس كا مستحق تھا۔ یه تو ان كی غرض تھی، اور حضرت ابراهیم علیه السلام كا مقصود بھی یهی هوگا كه: مجمع عام میں ان كو موقع ملے كه: مشركین كو عاجز ومبهوت كریں اور علیٰ رؤس الخلائق غلبهٔ حق كا اظهار هو؛ اسی وجه سے حضرت نے فرمایا: ﴿بَلْ فَعَلَهُ، كَبِیْرُهُمْ هٰذَا فَاسْئَلُوْهُمْ إِنْ كَانُوْا یَنْطِقُوْنَ۶۴﴾ [الأنبیاء:۶۲]. (فوائد)