اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
۲ ھل یه مستفهم عنه مثبت كے ساتھ خاص هے، جب كه همزه مثبت ومنفی دونوں پر داخل هوگا؛ لهٰذا ’’هَلْ مَا جَاءَ زَیْدٌ‘‘ نهیں كهه سكتے، اور ’’أمَا جَاءَ زَیْدٌ؟‘‘ كهه سكتے هیں ۔ ۳ ھل جب مضارع پر داخل هو تو اس كو مستقبل كے ساتھ خاص كر لیتا هے۱۔ ۱ یهاں بقیه ادَوات كو اِتماما للفائده ذكر كیا جاتا هے: بقیه ادوات استفهام مَنْ: ذوی العقول كی تعیین كے لیے وضع كیا گیا هے، جیسے: ﴿مَنْ ذَا الذِيْ یُقْرِضُ اللهَ قَرْضاً حَسَنًا فَیُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِیْرةً﴾ [البقرة:۲۴۵]؛ كون شخص هے جو الله كو قرض حسن (اچھا قرض) دے، پھر الله اس كے قرض (كے ثواب) كو كئی گنا بڑھادے۔ ملحوظه: استفهام كے اسلوب میں كبھی نفی كے معنیٰ بھی هوتے هیں ، جیسے: ﴿وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلاَّ الله﴾ [آل عمران: ۱۳۵]؛ ﴿مَنْ ذَا الَّذِيْ یَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِٖ﴾ [بقرة: ۲۵۵]؛ ﴿فَمَنْ یَّهْدِيْ مَنْ أَضَلَّ اللهُ﴾ [روم:۲۹]؛ الله كے علاوه كوئی هے جو گناه كو بخشے! یعنی: سوائے الله كے كوئی گناه بخشنے والا نهیں ! ملحوظه: یاد رهے كه مَن كے جواب میں مستفهم عنه كی ذات كو ذكر كیا جائے گا یا پھر ایسے اوصاف ذكر كئے جائیں گے جو مستفهم عنه كے ساتھ خاص هوں ، جیسے: ﴿قَالَ فَمَنْ رَّبُّكُمَا یٰمُوْسیٰ٭۴۹ قَالَ رَبُّنَا الَّذِيْ أَعْطیٰ كُلَّ شَيْء خَلْقَهُ ثُمَّ هَدٰی۵۰﴾ ٭[طٰهٰ: ۴۹]، فقد أجاب موسیٰ ببیان الصفات الخاصة برب العزة المنفرد بھا سبحانهٗ وتعالیٰ؛ وقولهٗ تعالیٰ: ﴿فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوْا فِي الْأَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَقَالُوْا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً؛ أَوَ لَمْ یَرَوْا أَنَّ اللهَ الَّذِيْ خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّة﴾ [حٰم السجدة:۱۵]، فالجواب ھنا قد اشتمل علیٰ ذكر الذات المستفهم عنھا. (علم المعانی) ما: غیر ذوی العقول كے لیے آتا هے، اور تین جگهوں میں استعمال هوتا هے: ۱كبھی ما سے ذات كی وضاحت مقصود هوتی هے، جیسے: ﴿وَمَا تِلْكَ بِیَمِیْنِكَ یٰمُوْسیٰ٭۱۷﴾ [طٰهٰ: ۱۷]؛ ﴿إِذْ قَالَ لِأَبِیْهِ وَقَوْمِهِ مَاتَعْبُدُوْنَ٭۷۰ قَالُوْا نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَھَا عٰكِفِیْنَ٭۷۱﴾ [الشعراء: ۷۰، ۷۱]. ۲كبھی ما سے مسمّٰی كی حقیقت اور اس كی صفت كو طلب كرنا مقصود هوتا هے، جیسے: ﴿مَا هٰذِهِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِيْ أَنْتُمْ لَهَا عٰكِفُوْنَ٭۵۲ قَالُوْآ وَجَدْنَآ اٰبَآءَنَا لَهَا عٰبِدِیْنَ۵۳﴾ [الأنبیاء:۵۲] . ۳اور كبھی ما سے مسمّٰی كی محض صفت كو طلب كرنا مقصود هوتا هے، جیسے: ﴿قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ٭۲۳ قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَیْنَهُمَا إن كُنتُم مُّوقِنِیْن٭۲۴﴾ [الشعراء: ۲۳، ۲۴]؛ دوسری آیت میں سوال حقیقتِ مسمیّٰ كے بارے میں هے؛ لیكن جواب مقتضائے استفهام كے خلاف هے;؛ اور تیسری آیت میں سوال صفتِ مسمّٰی كے بارے میں هے؛ لیكن جواب سائل كی توقع كے خلاف هے۔ (علم المعانی) متی: متیٰ سے زمانه كی تعیین كے بابت دریافت كیا جاتا هے، چاهے ماضی كا سوال هو یا مضارع كا، جیسے: ﴿وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی هٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صٰدِقِیْنَ٭۴۸﴾ [یٰسٓ: ۴۸].