اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
همزهٔ استفهام جب طلبِ تصور۱ كے لیے هو تو مستفهَم عنه كو همزه سے متصل ركھنا ضروری هے؛ هاں ! اكثر وبیشتر معادِل۲ (مقابل) كو أم كے بعد ذكر كرتے هیں ، اس ’’أم‘‘ كو امِ متصله كهتے هیں ؛ لیكن كهیں ایسے مواقع پر معادل كو حذف بھی كر دیتے هیں جب كه معادل پر كوئی قرینه دلالت كرتا هو، جیسے ذكر معادل كی مثال: ﴿یٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ! ءَأَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ أَمِ اللهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ٭﴾[یوسف:۳۹]؛ حذفِ معادِل كی مثال: ﴿ءَأَنْتَ فَعَلْتَ هٰذَا بِاٰلِھَتِنَا یٰإِبْرٰھِیْم٭﴾۳ [الأنبیاء: ۶۲]، أي: ءَأنْتَ فَعَلْتَ هٰذَا أمْ غَیْرُكَ؟. همزهٔ تصور كے بعد آنے والے أم كو ’’امِ متصله‘‘۴؛ اور همزهٔ تصدیق اور هَلْ كے بعد آنے والے أم كو ’’امِ منقطعه‘‘ كهاجاتا هے۔ ۱طلبِ تصور: اجزائے جمله میں سے كسی ایك (مفرد) كے بابت دریافت كرنا، جب كه سائل كو حكم (یعنی: طرفین كے درمیان واقع هونے والی ثبوتی یا سلبی نسبت) كا یقین هو؛ لیكن اجزائے جمله -مثلاً- یه حكم كس كے لیے ثابت هے؟ اس كو دریافت كرنا مقصود هو تو اُسے ’’طلبِ تصور‘‘ كهاجاتا هے۔ ۲ طلبِ تصور كی صورت میں همزه سے جو چیز متصل هوگی اس كو ’’مسئول عنه‘‘ كهیں گے، اور اس كا ایك مقابل ذكر كیا جائے گا جو أم متصله كے بعد آئے گا، اس كو ’’معادِل‘‘ كهتے هیں ، جیسے: أَ عَلِي مُسافر أم سعیدٌ، اس مثال میں عَليّ مسئول عنه هے، اور سَعِیْد مسئول عنه كا معادل هے۔ طلب تصدیق: طرفین كے درمیان واقع هونے والی ثبوتی یا سلبی نسبت كے بارے میں دریافت كرنا؛ اور یه طلب اس وقت هوتی هے جب كه سائل كو اَجزائے جمله كے بابت تو علم هوتا هے؛ لیكن وه حكم (جملے كی ثبوتی یاسلبی نسبت) سے ناواقف هوتا هے؛ لهٰذا اس حكم پر واقفیت حاصل كرنے كے لیے سوال كرتا هے؛ اس كو ’’طلبِ تصدیق‘‘ كها جاتا هے۔ فائده: تصدیق كی صورت میں نسبت هی ’’مسئول عنه‘‘ هوگی اور اس كے ساتھ كوئی معادل ذكر نهیں كیا جائے گا جیسا كه اوپر ذكر كرده مثال ﴿ألَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ﴾ سےظاهر هے۔ ۳آیتِ اولیٰ: حضرت یوسف علیه السلام نے فرمایا: اے میرے قید خانے كے دو ساتھیو!كیا بهت سے متفرق رب بهتر هیں ، یاوه ایك الله جس كا اقتدار سب پر چھایا هوا هے (وه بهتر هے)؟ آیتِ ثانیه: جب ابراھیم علیه السلام كو لایا گیا تو وه (كافرین) بولے: ابراھیم! كیا همارے خداؤں كے ساتھ یه حركت تم هی نے كی هے؟ (علم المعانی، فوائد) ۴أمِ متصله كی وجه تسمیه یه هے كه: اس میں مابعدِ ام یه مابعد همزه سے موافق هوتا هے، نیز دونوں مفردات معنوی چور پر باهم مربوط هوتے هیں ؛ جب كه امِ منقطعه دو جملوں كے درمیان هوتا هے؛ اور اس وقت وه’’أم‘‘ به معنیٰ: بل هوگا۔ خلاصهٔ كلام: همزهٔ تصور كے بعد آنے والا ’’ام‘‘ متصله هوگا اور همزهٔ تصدیق اور ’’هل‘‘ كے بعد آنے والا ’’ام‘‘ منقطعه هوگا۔