اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
إِذَا أَنْتَ لَمْ تُنْصِفْ أَخَاكَ وَجَدْتَهُ ۃ عَلیٰ طَرْفِ الهِجْرَانِ إِنْ كَانَ یَعْقِلُ وَیَرْكَبُ حَدَّ السَّیْفِ مِنْ أَنْ تَضِیْمَهُ ۃ إِذَا لَمْ یَكُنْ عَنْ شَفْرَةِ السَّیْفِ مَزْحَلُ۱ حكم: یہ قسم سرقۂ محضہ ہونے كی بناء پر نہایت مذموم ہے، جیسے: كانَ بُشَیْرٌ رَجُلا مُنَافِقًا، یَقُوْلُ الشِّعْرَ -یَهْجُوْ بِهِ أصْحَابَ النَّبِيِّ ﷺ- ثُمَّ یَنْحَلُهُ بَعْضَ العَرَبَ۲. [ترمذی] ملحوظہ: سرقہ كی اس قسم سے قریب یہ قسم بھی ہے كہ: شاعر یا ناثر دوسرے كے شعر كو نظم وترتیب میں تغیر كے بغیر متضاد معانی والے الفاظ سے بدل دے، جیسے: آل جفنہ كی مدح میں حضرت حسان بن ثابتؓ كے آنے والے شعر كا كسی نے سرقہ كیا ہے۔ حضرت حسان كا شعر: بِیْضُ الوُجُوْہِ كَرِیْمَةٌ أَحْسَابُهُمْ ۃ شُمُّ الأُنُوْفِ مِنَ الطِّرَازِ الأَوَّلٖ۳ كسی شاعر نے مدح كے متضاد معنیٰ (ہجو) بیان كرنے كے لیے اسی نظم وترتیب كو باقی ركھتے ہوئے شعر كہا ہے: ۱جب تو اپنے بھائی كے حقوق ادا نہ كرے اور وہ بھائی اگر عقل مند ہوگا تو كنارہ كشی اختیار كر لے گا؛ اور تیرے اس پر ظلم كرنے كی صورت میں اگر وہ تلوار كی تیزی سے خلاصی كی كوئی راہ نہ پائے تو تلوار كی دھار پر چلنا بھی گوارا كر لے گا۔ یہ اشعار عبد اللہ بن زبیر نے سنا دیئے اس كے كچھ دیر بعد مُعْن بن اوس شاعر آئے اور انہوں نے ایك پورا قصیدہ سنایا جس میں یہ دو اشعار بھی تھے تب معلوم ہوا كہ عبد اللہ نے سرقہ كیا ہے۔ (علم البدیع، دروس) ۲مدینه میں ایك بُشیر نامی منافق تھا جو ازخود صحابه كی هجو میں اشعار كها كرتا تھا، پھر بعض عربوں كی طرف غلط انتساب كرتا تھا؛ صحابه جب ان اشعار كو سنتے تو كهتے: به خدا یه اشعار اسی خبیث نےهی كهے هیں ۔ فائدہ: شاعر كا عام غرض (سخاوت وشجاعت، فقرو غنی، ذہانت وبلادت وغیرہ) كو بیان كرنے میں مخصوص طریقۂ تعبیر (مثلا: خوب صورت عورت كو شمس وقمر سے، سخی كو بحر وبادل سے، غبی كو حجر وحمار سے اور شجاع كو سیف ونار سے تشبیہ دینا؛ اسد كا استعارہ بہادر كے لیے كرنا؛ كثیر الرماد اور مہزول الفصیل سے كرم كا كنایہ كرنا) كو استعمال میں لانا؛ سرقات شعریہ شمار نہ ہوگا۔ (علم البدیع) ۳میرے ممدوح گورے چہرے والے، معزز خاندان سے تعلق ركھنے والے ہیں ؛ بلند ناك والے، اوّل درجے كے ہیں ۔