اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
۲ سَجْع مُتَوازي: وہ سجع ہے جس كے صرف دو فاصلے وزن عروضی اور رَوِی میں متفق ہوں ، جیسے: ﴿فِیْهَا سُرُرٌ مَّرْفُوْعَةٌ وَّأَكْوَابٌ مَّوْضُوْعَةٌ﴾ [الغاشیة:۱۴-۱۳]؛ آپ ﷺكی دعا: اللهم إنَّا نَجْعَلُكَ فِيْ نُحُوْرِهِمْ، وَنَعُوْذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ۱. (علم البدیع) ۳ سجع مُطَرَّف: وہ سجع ہے جس كے دو یا زیادہ جملوں كے فواصل (اخیری كلمے) وزن عروضی میں مختلف ہوں ؛ البتہ رَوِی (حرف اخیر) میں متفق ہوں ، جیسے: ﴿مَا لَكُمْ اور دونوں كا قافیہ حرف ’’میم‘‘ پر ہے۔ اسی طرح دوسری آیت سمجھ لیں ۔ آیتِ ثانیه: یقین جانو ان سب كو همارے پاس هی لوٹ كر آنا هے، پھر یقیناً ان كا حساب لینا همارے ذمے هے۔ فائدہ:وز نِ عروضی: وہ لگاتار (یكے بعد دیگرے) آنے والی حركات وسكنات ہیں جو قواعد علم عروض كے مطابق ہوں جس پر اشعار تیار كیے جاتے ہیں ؛ وہ دس ہیں : فَعُوْلُنْ [//٭/٭]، مَفَاعِیْلُنْ [//٭/٭/٭]،مُفَاعَلَتُنْ [//٭///٭]، فَاعِلاتُنْ [/٭//٭/٭]، فَاعِلُنْ [/٭//٭]، فَاعِلاتُنْ [/٭//٭/٭]، مُسْتَفْعِلُنْ [/٭/٭//٭]، مُتَفَاعِلُنْ [///٭//٭]، مَفْعُوْلاَتُ [/٭/٭/٭/]، مُسْتَفْعِلُنْ [/٭/٭//٭]. (میزان الذهب) ملحوظہ: وزنِ عروضی میں حرفِ مشدد كو دو حروف شمار كیے جاتے ہیں : پہلا ساكن دوسرا متحرك، اسی طرح حرفِ منوَّن كو بھی دو حروف شمار كیے جاتے ہیں ؛ نیز حركت كو حركت كے مقابل كیا جاتا ہے؛ اگرچہ كسرہ فتحہ كے مقابل كیوں نہ ہو، اور سكون سكون كے مقابل ہوتا ہے۔ وزنِ عروضی تین چیزوں سے تركیب پاتی ہے: اسباب، اوتاد اور فواصل۔ (میزان الذہب)تفصیل كے لیے دستور الطلباء ملاحظہ فرمائیں ۔ ۱ ترجمه: اُس میں اونچی اونچی نشستیں هوں گی اور سامنے ركھے هوئے پیالے۔ یہاں صرف دو فاصلے ﴿مَّرْفُوْعَةٌ﴾ اور ﴿مَّوْضُوْعَةٌ﴾ وزن اور روی میں متفق ہیں ؛ ورنه دوسرے كلمات: ﴿فِیْهَا سُرُرٌ - أَكْوَابٌ﴾ مختلف هیں ؛ جب كه مرصّع میں اكثر یاتمام كلمات وزنِ عروضی میں متفق تھے۔ فائدۂ اُولیٰ: اگر دو فاصلے صرف وزن میں متفق ہوں قافیہ میں متفق نہ ہوں تو اس كو ’’موازنہ‘‘ كہتے ہیں ، جیسے: ﴿وَنَمَارِقُ مَصْفُوْفَةٌ۱۵ وَّزَرَابِيُّ مَبْثُوْثَةٌ۱۶﴾ [الغاشیة:۱۶-۱۵] یہاں ﴿مَصْفُوْفَةٌ﴾ اور ﴿مَبْثُوْثَةٌ﴾ دونوں وزن میں متفق ہیں كہ دونوں مفعول كے وزن پر ہے؛ لیكن قافیہ (حرف روی) پہلے میں فاء ہے اور دوسرے میں ثاء ہے۔ (علم البدیع) فائدۂ ثانیہ: یاد رہے كہ جس طرح ایك شخص كے كلام میں سجع ہوا كرتا ہے اسی طرح دو شخصوں كے كلام میں بھی سجع ہوا كرتا ہے، جیسے آقائے مدنی ﷺنے كسی كافر كے قاتل كے بارے میں دریافت فرمایا، تو صحابہ نے جواب دیا: ’’ابن الأكوع‘‘ -أي قتله ابن الأكوع-، اس پر آپ ﷺنے خوش خبری سنائی: له سلبه أجمع! دیكھئے صحابہ كے جواب اور آپ كے حكم، دونوں كے اخیر میں حرف روی عین ہے۔ (علم البدیع)