اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
۲ جوابِ اَعم: جواب سوال كے مقابلے میں عام ہو، جیسے: ﴿قُلْ: مَنْ یُّنَجِّیْكُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ﴾ [أنعام:۶۳] كا جواب: ﴿قُلِ: اللہُ یُنَجِّیْكُمْ مِّنْهَا وَمِنْ كُلِّ كَرْبٍ﴾۱ [أنعام:۶۴]سے دلوایا گیا۔ ۳ جوابِ اَخص: جواب سوال كے مقابلے میں خاص ہو، جیسے: ﴿إِئْتِ بِقُرْآنٍ غَیْرِ هٰذَآ أَوْ بَدِّلْهُ﴾ كا جواب یوں دِلوایا گیا: ﴿قُلْ مَا یَكُوْنُ لِيْ أَنْ أَبَدِّلَهُٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِيْ﴾۲ [یونس:۱۵]. كے خلاف جواب دیا كه: ’’وه سارے آسمانوں اور زمین كا، اور اُن ساری چیزوں كا پروردگار هے جو ان كے درمیان پائی جاتی هیں ، اگر تم كو واقعی یقین كرنا هو‘‘۔ اور یہ بتایا كہ: سوال منْ ربُّ العٰلمیْنَ؟ یعنی: رب العالمین كون ہے؟ سے ہونا چاہیے تھا؛ كیوں كہ ﴿ما﴾ كے ذریعے حقیقت وماہیت اور جنس كا سوال ہوتاہے؛ باری تعالیٰ كے متعلق یہ سوال كرنا بڑی غلطی ہے؛ اس لیے كہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ كی كوئی جنس ہی نہیں جس كو ’’ما‘‘ كے جواب میں بیان كی جائے، اور نہ ہی اس كی حقیقت كا ادراك ہوسكتا ہے كہ جواب میں حقیقت بیان كی جائے؛ چنانچہ حضرت موسیٰؑ نے غلط سوال كا جواب نہیں دیا؛ بلكہ صحیح جواب دے كر صحیح سوال كی طرف اشارہ كیا كه: یهاں سوال ’’مَنْ رَبُّ العَالَمِیْنَ؟‘‘ هونا چاهیے تھا۔ (الاتقان فی علوم القرآن) ۱ كهو: خشكی اور سمندر كی تاریكیوں سے اُس وقت كون تمھیں نجات دیتا هے ؟ كهو: الله هی تمهیں اس مصیبت سے بچاتا هے اور هر دوسری تكلیف سے بھی۔ اس سوال میں ظلماتِ بر وبحر میں پھنسنے والوں كو نجات دلانے والی ذات كے بابت سوال تھا، كہ: تم كو جنگل اور دریا كے اندھیروں سے كون نجات دیتا ہے؟ اس سوال كے جواب میں عمومیت پیدا كرتے ہوئے ہر قسم كی شدائد ومصائب میں پھنسنے والے كو داخل فرما كر جواب دیا كہ: اللہ عز وجل تمھیں ظلمات بر وبحر سے اور ہر قسم كی شدائد ومصائب سے نجات دِلانے والے ہیں ۔ (الاتقان) ۲ترجمه: وه یه كهتے هیں كه: ’’یه نهیں ، كوئی اور قران لے كر آؤ، یا اس میں تبدیلی كرو‘‘؟ (اے پیغمبر!) ان سے كهه دو كه: ’’مجھے حق نهیں پهنچتا كه میں اس میں اپنی طرف سے تبدیلی كروں ‘‘۔ قرآن كی عام پند ونصیحت كو بہت سے بندے پسند كرتے ہیں ؛ لیكن جب بت پرستی یا ان مشركین كے مخصوص عقائد ورسوم كا رد ہوتا ہے تو مشركین وحشت كھاتے اور ناك بھوں چڑھا كر رسول اللہ ﷺسے سوال كرتے كہ: اپنے خدا سے كہہ كر یا دوسرا قرآن لے آئے؟ جس میں یہ مضامین نہ ہوں ؛ اور اگر یہی قرآن رہے تو اتنے حصے میں ترمیم كر دیجیے جو بت پرستی وغیرہ سے متعلق ہے؟۔ اس كے جواب میں صرف تبدیل كا ذكر فرمایا ہے -كہ: میں اس قرآن میں تبدیلی نہیں كر سكتا!- اختراع كا نہیں ؛ حالاں كہ سوال میں دونوں كا ذكر تھا، اس اختصار كی وجہ یہ ہے كہ: تبدیل كرنا اختراع سے آسان ہوتا ہے، جب تبدیلی كی نفی كر دی تو اختراع كی نفی تو بدرجۂ اَولیٰ ہوگئی۔ علامہ زمخشری فرماتے ہیں كہ: تبدیل كرنا بشر كے لیے كسی حد تك ممكن ہے؛ لیكن اختراع ممكن ہی نہیں !۔ (الاتقان)