اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
۸ إِسْتِتْبَاعْ: كسی شیٔ كی تعریف اس انداز سے كرنا كہ اس سے دوسری چیز كی تعریف بھی ہو جائے، جیسے: ﴿فِیْهِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ أَنْ یَّتَطَهَّرُوْا، وَاللہُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ﴾۱ [التوبة:۱۰۸] ۹ اِدْمَاج: متكلم ایك مقصد كو بیان كرتے ہوئے دوسرے مقصد كو بھی ساتھ سمیٹ لے اس طور پر كہ كلام سے ان دو مقصدوں میں سے صرف ایك ہی مقصد ظاہر ہوتا ہو، جیسے: ﴿لَهُ الْحَمْدُ فِي الْأُوْلیٰ وَالْآخِرَةِ﴾ [القصص:۷۰]؛ ﴿فَإِنْ ’’طِبْنَ‘‘ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَكُلُوْهُ هَنِیْئًا مَرِیْئًا﴾۲ [نساء:۴]. ﴿رَاعِنَا﴾یعنی ہماری رعایت كرو!یہ كلمہ سن كر كبھی مسلمان بھی كہہ دیتے۔لہٰذا مؤمنین كو یہ كلمہ بولنے سے منع كر دیا اور فرمایا كہ: حضرت كی بات كو دھیان اور توجہ سے سنیں اور اگر كہنا ہے تو ’’انظرنا‘‘ كہیں ؛كیوں كہ یہود اس لفظ كو بد نیتی سے زبان دبا كر ’’رَاعِیْنَا‘‘ یعنی: ہمارا چرواہا كہتے تھے؛ نیز یہود كی زبان میں ﴿رَاعِنَا﴾ احمق كو بھی كہتے ہیں ۔ (علم البدیع) ۱قُبا میں ایسے لوگ ہیں جو پاك صاف رہنے كو پسند كرتے ہیں ،اور اللہ تعالیٰ پاك صاف رہنے والوں كو پسند كرتا ہے۔ یعنی: آپ كی نماز كے لائق وہ مسجد ہے جس كی بنیاد اوّل دن سے تقویٰ اور پرہیز گاری پر قائم ہوئی (خواہ مسجد نبوی ہو یا مسجد قُبا)؛ اُس كے نمازی گناہوں ، شرارتوں اور ہر قسم كی نجاستوں سے اپنا ظاہر وباطن پاك صاف ركھنے كا اہتمام كرتے ہیں ؛ اسی لیے خدائے پاك اُن كو محبوب ركھتا ہے۔ دیكھئے! آیت میں مطهِّرین كی تعریف كے ضمن میں طہارت كی تعریف بھی ہوگئی۔ ۲ آیتِ اولی: تعریف اُسی كی هے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ دیكھئے! یہ مضمون بیان كرنا مقصود ہے كہ: قابلِ ستائش صرف اللہ كی ذات ہے اور یہ مقصد ﴿وَلَهُ الْحَمْدُ﴾ سے حاصل ہوگیا؛ لیكن اس معنی میں مبالغہ پیدا كرنے كے لیے ﴿فِي الْأوْلیٰ وَالْآخِرَةِ﴾ كا لفظ بڑھاكر امورِ آخرت (حشر ونشر اور جزا وسزا) كی طرف بھی اشارہ فرما لیا۔ (الزیادة والاحسان)۔ آیتِ ثانیه: اور عورتوں كو ان كا مهر خوشی سے دیا كرو۔ هاں ! وه خود اس كا كچھ حصه خوش دِلی سے چھوڑ دیں (یعنی: مُعاف كردے) تو اُسے مزیدار اور خوشگوار سمجھ كر كھاؤ! دیكھیے: یهاں ’’عَفَوْنَ‘‘ كے بجائے ﴿طِبْنَ﴾ كا لفظ استعمال فرماكر یه بھی اشاره كر لیا كه: اگر عورت كسی دباؤ میں آكر مهر كو مُعاف كرے تو یه معافی صحیح نهیں ۔ اور ادماج كی مثال: جیسے شاعر كا قول: أقَلِّبُ فِیْهِ أجْفَانِيْ كَأنِّيْ ۃ أعُدُّ بِهٖ عَلیَ الدَّهْرِ الذُّنُوْبَا مَیں اس رات میں اپنی پلكوں كو اس قدر كثرت سے پلٹتا تھا كہ گویا اس كے ذریعہ زمانے كے گناہوں كو شمار كر رہا ہوں ۔ اس میں شاعر اصالةً تو تكالیف سے بھری رات كی درازی كو بیان كرنا چاہتا ہے كہ: كب یہ رات گزرے اور میں مصیبت سے رِہا ہوں ؛ مگر اس مقصد كو بیان كرنے كے ضمن میں اس نے یہ بات بھی شامل كر دی، كہ: اہلِ زمانہ كے گناہ اور مظالم كی تعداد اس قدر بے حساب ہے كہ میں انہیں پلك كو جھپكا كر شمار كر رہا تھا تو بھی وہ ختم ہونے كا نام نہیں لے رہے تھے۔