اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
جملوں میں بیان كرے جو جملے وزن میں باہم مساوی ہوں ، جیسے: ﴿اَلَّذِيْ خَلَقَنِيْ فَهُوَ یَهْدِیْنِ٭ وَالَّذِيْ هُوَ یُطْعِمُنِيْ وَیَسْقِیْنِ٭ وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ٭ وَالَّذِيْ یُمِیْتُنِيْ ثُمَّ یُحْیِیْنِ٭﴾۱ [الشعراء:۸۱-۷۸] (الزیادة) ۶ تَجْرِیْد: متكلم كسی موصوف كی صفت سے اسی جیسی ایك دوسری صفت نكال كر مبالغةً یہ باور كرائے كہ: اس موصوفِ حقیقی میں ایك دوسرا موصوف (صفتِ اول) اَور بھی ہے جو دوسری صفت سے متصف ہے، جیسے: ﴿ذٰلِكَ جَزَآءُ أَعْدَآءِ اللہِ النَّارُ، لَهُمْ ’’فِیْهَا دَارُ الْخُلْدِ‘‘﴾۲ [حٰم السجدة:۲۸]. ملحوظہ: بیان تجرید كے لیے منتزع منه پر تین حروف داخل كیے جاتے هیں : ۱ حرفِ: في، جیسے آیت بالا میں ہے؛ نیز: لَكَ فِي دَارِكَ دَارُ كَرَامَة؛ ۲ حرفِ: بَاء، جیسے: لَئِنْ سَألْتَ فُلاناً لَتَسْأَلَنَّ بِهِ البَحْر؛ ۳ حرفِ: مِنْ، جیسے: لِيْ مِنْ فُلانٍ صَدِیْقٌ حَمِیْمٌ. (علم البدیع) ۷ اِیهَام وتَوجیْہ: دو متضاد مفہوم (مثلاً: مدح وهجاء، ذم وثناء) كا احتمال ركھنے والا كلام كرنا، جیسے: ﴿یٰأَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاتَقُوْلُوْا: ’’رَاعِنَا‘‘؛ وَقُوْلُوا: انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا﴾۳. [البقرة:۱۰۴] ۱ ترجمه: میرے لیے تو یه سب دشمن هیں ؛ سوائے ایك رب العالمین كے جس نے مجھے پیدا كیا هے، پھر وهی میری رهنمائی فرماتا هے، اور جو مجھے كھلاتا هے، اور جب میں بیمار هوتا هوں تو مجھے شفا دیتا هے، اور جو مجھے موت دے گا پھر زنده كرے گا۔ ۲ یهی هے سزا الله كے دشمنوں كی جو آگ كی صورت میں هوگی، اُسی میں اُن كا ’’دائمی ٹھكانا‘‘ هوگا، جو اس بات كا بدله هوگا كه وه هماری آیتوں كا انكار كیا كرتے تھے۔ دیكھئے! آیت كا مطلب یہ نہیں كہ: جہنم میں ایك دار الخلد ہے اور دوسرا غیر دار الخلد؛ بلكہ جہنم ہی خود دار الخلد ہے، اس كی ایك صفت عذاب هے، اور عذاب كی ایك صفت دارالخلدهے۔ یہاں جہنم (موصوف) ہی دار الخلد ہے؛ لیكن عذاب جہنم (صفت) كی شدت اور اس كی ہولناكی میں مبالغہ وكمال بیان كرنے كے لیے عذاب جہنم (صفت) سے متصف ایك دوسرا دار نكالا گیا، اس كو دارالخلد كا نام دیا، اور بتایا كہ: جہنم كا عذاب اس قدر خوف ناك ہے كہ اس عذاب سے ایك دوسری جہنم (دارالخلد) بھی نكالی جاسكتی ہے۔ ۳ ترجمه: ایمان والو! (رسول الله ﷺ سے مخاطب هوكر) ’’راعنا‘‘ نه كها كرو، اور ’’انظرنا‘‘ كهه دیا كرو، اور سنا كرو۔ یہود حضرت كی مجلس میں بیٹھتے اور حضرت كی باتیں سنتے، اور بعضے جو اچھی طرح بات نہ سنتے وہ كہتے تھے: