اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
وعرضیه (ظاهری وباطنی خوب صورتی) سے مزین هو۔ (جواهر، طریق الوصول) موضوع: الفاظ اور ان كے معانی هیں ۔ غرض وغایت: موقع ومحل كے مطابق بات كرنے كی صلاحیت پیدا هو جائے۔ اصطلاح بلغاء میں بلاغت دو چیزوں سے متعلق هے: بلاغتِ كلام، بلاغتِ متكلم۔ بلاغتِ كلام: كلام كا فصیح هونے كے ساتھ مقتضائے حال كے مطابق هونا، اور دل ودماغ پر اچھا اثر چھوڑنا۔ حال: وه امر(موقع ومحل) جو متكلم كو مخصوص انداز میں عبارت لانے پر اُبھارے؛ اس كا دوسرا نام’’مقام‘‘ هے۔ مُقْتَضا: كلام كرنے كا وه مخصوص انداز جس كا حال نے تقاضه كیا هے كه: اس موقع پر كلام هو تو ایسا هو؛ اس كا دوسرا نام ’’اعتبارِ مناسب‘‘ بھی هے۔ مطابقت: حال كی رعایت كرتے هوئے كلام كو مخصوص انداز میں پیش كرنا، جیسے: مخاطب كسی بات كا انكار كر رها هو تو اس كا تقاضیٰ یه هوا كه اس كے سامنے كلام كو مؤكد صورت میں لایا جائے۔ دیكھو! یهاں مخاطب كا انكار ایك ’’حال‘‘ هے؛ كیوں كه اُسی نے كلام میں تاكید لانے پر اُبھارا هے، تاكید ’’مقتضا‘‘ هے، اور منكِر كے سامنے كلام كو مؤكد صورت میں پیش كرنا ’’مطابقت‘‘ كهلائے گا۔ بلاغتِ متكلم: عمده تركیبات اور بُلند تعبیرات كو به كثرت پڑھنے اور اُن میں غور وفكر كرنے سے متكلم میں ایك ایسا ملكه پیدا هو جس كی وجه سے متكلم هر كسی مضمون كو بلیغ كلام كے ذریعے تعبیر كرنے پر قادر هوجائے۱۔ ۱فائده: كلامِ بلیغ كا مطلب یه هے كه وه كلام مذكوره عیوب سے پاك هو، ساتھ هی اس كے معانی مقتضائے حال كے مطابق بھی هو۔