اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
زائد از جمله عبارت كو لانے كی مثال: ﴿قَالَتْ رَبِّ إِنِّيْ وَضَعْتُهَآ أُنْثٰی -وَاللهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ، وَلَیْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثٰی- وَإِنِّيْ سَمَّیْتُهَا مَرْیَمَ﴾۱ [آل عمران:۳۶] ۱۲ احتراس وتكمیل: خلافِ مقصود كا وهم پیدا كرنے والے كلام میں ایسی قید كا اضافه كرنا جو اس وهم كو دور كردے، جیسے: ﴿وَأَدْخِلْ یَدَكَ فِيْ جَیْبِكَ تَخْرُجْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْءٍ﴾ [النمل:۱۲]؛ اور آپﷺ كا حسنؓ یا حسینؓ كے بارے میں فرمان: إنَّكُمْ لَتُبَخِّلُوْنَ وَتُجَبِّنُوْنَ وَتُجَهِّلُوْنَ؛ وَإنَّكُمْ لَمِنْ رَیْحَانِ اللهِ۲.۔ (الترمذي) ۱۳ اِیغال: كلامِ شعر یا كلامِ نثر كو ایسے لفظ (ركن كلام یا قید) پر ختم كرنا جو ایسا نَیا فائده دے جس كے بغیر كلام كا مقصد مكمل هو چكاهو، جیسے: ﴿وَجَآءَ مِنْ أَقْصَی الْمَدِیْنَةِ رَجُلٌ یَّسْعیٰ، قَالَ یٰقَوْمِ! اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِیْنَ اِتَّبِعُوْا مَنْ لاَّیَسْأَلُكُمْ أَجْرًا، وَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ٭﴾۳ [یٰس:۲۰] ذكر كیا هے۔ مزید بر آں اسی جملهٔ معترضه كے درمیان ﴿لَقَسَمٌ - عَظِیْمٌ﴾ موصوف صفت كے بیچ ﴿لَوْ تَعْلَمُوْنَ﴾ كو ذكر كیا هے؛ یعنی: جس طرح ستاروں كا نظام انتهائی مستحكم هے اسی طرح الله تعالیٰ كا یه كلام بھی نهایت محكم اور ناقابلِ شكست نظام كے تحت نازل كیا گیا هے۔ اور تقریر كی مثال: ﴿قَالُوْا تَاللهِ -لَقَدْ عَلِمْتُمْ- مَّا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِي الْأَرْضِ﴾ [یوسف:۷۳] (علم المعانی)؛ اور دعا كی مثال: أَنَا -حَفِظَكَ اللهُ- مَرِیْضٌ. ۱اس جگه امرأت عمران كے دو قولوں كے درمیان ﴿وَاللهُ أَعْلَمُ﴾ إلخ كو تسلی اور تبشیر كے لیے ذكر كیا هے۔ (علم المعانی) ۲مثالِ اول: یعنی: هاتھ گریبان میں ڈال كر اور بغل سے ملا كر نكالوگے تو نهایت روشن سفید چمكتا هوا نكلے گا، اور یه سفیدی برص وغیره كی نه هوگی جو عیب سمجھی جائے؛ دیكھئے! اس آیت میں ﴿مِنْ غَیْرِ سُوْءٍ﴾ نے برص اور كوڑھ كی بیماری هونے كے وهم كو دور كیا هے۔ مثالِ ثانی: اس حدیث كی تشریح میں حضرت گنگوهی نور الله مرقده فرماتے هیں كه: ابتدائے كلام: -اولاد والدین كو بخیل، بزدل اور جاهل بناتی هیں - سے یه وهم هوسكتا هے كه: اولاد كا معامله اگر ایسا هی هے تو ان كی طرف توجه كرنا؛ بلكه دیكھنا بھی نه چاهیے؛ اس وهم كو آقا ﷺ نے ’’إنَّكُمْ لَمِنْ رَیْحَانِ اللهِ‘‘ سے دور كیاهے۔ ریحان: ایك قسم كی پسندیده خوشبو هے جو دل میں فرحت وسرور پیدا كرتی هے، یعنی: هاں ! تمھارا وُجود باعثِ فرحت وسُرور هے!۔ (الكوكب الدری) ۳ شهر كے پَرلے علاقے سے ایك شخص (حبیب نجار) دوڑتا هوا آیا، اس نے كها: اے میری قوم كے لوگو! اِن رسولوں كا كهنا مان لو! جو تم سے كوئی اُجرت نهیں مانگ رهے، اور وه لوگ (انبیاء ورُسل) صحیح راستے پر هے؛ دیكھیے! یهاں ﴿وَهُمْ مُّهْتَدُوْنَ﴾ میں اِیغال هے؛ كیوں كه تمام انبیاء ورسل هدایت یافته هی هوتے هیں ؛ لیكن زیادتیٔ ترغیب اور اَنبیاء كی اِتباع واِقتداء پر اُبھارنے كے لیے ﴿وَهُمْ مُّهْتَدُوْنَ﴾ كو بڑھایا گیا هے۔ (علم المعانی)