اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
یُوْسُفُ، قَالَ: أَنَا یُوْسُفُ، وَ’’هٰذَا‘‘ أَخِيْ﴾۱ [یوسف: ۹۰] ۵ قلة الثِّقَة بالقرینة: محذوف پر دلالت كرنے والے قرینے كے غیر واضح هونے سے مسند الیه كو ذكر كرنا، جیسے: ﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰهُمُ اللهُ وَرَسُوْلُهُ، وَقَالُوْا حَسْبُنَا اللهُ، سَیُؤْتِیْنَا ’’اللهُ‘‘ مِنْ فَضْلِهِ وَرَسُوْلُهُ، إِنَّآ إِلَی اللهِ رٰغِبُوْنَ﴾۲ [التوبة:۵۹]. ۶ تعجب: انوكھے حكم كے اظهار پر مسندالیه (وغیره) كو ذكر كرنا، جیسے: ﴿ءَإِنَّكَ لَـ’’أَنْتَ‘‘ یُوْسُفُ﴾۳ [یوسف:۹۰] ۱ آیتِ اولیٰ میں ﴿كَبِیْرُهُمْ﴾ فاعل كو ﴿هٰذَا﴾ اسمِ اشاره كے ذریعه متعین فرما كر سامع كی غباوت كی طرف اشاره كیا هے۔ آیتِ ثانیه میں جب اِخوانِ یوسف كے سامنے متكلم (یوسف) كی تعیین هوگئی تو بنیامین كی اُخوّت بھی معلوم هوگئی تھی؛ لیكن الله تعالیٰ كے روشن كرده چراغ كو كنویں میں ڈال كر گُل كرنے والے بےوقوف اِخوان كی غباوت اور اپنے بابت یوسف هونے كی توثیق كے لیے ﴿هٰذَا أخِيْ﴾ مسند الیه كو ذكر فرمایاهے۔ اسی طرح مَاذَا قَالَ أَحْمَدُ؟، كے جواب میں ’’أَحْمَدُ قَالَ كَذَا‘‘ كهنا؛ یهاں صرف ’’قال كذا‘‘ كهنا چاهیے تھا؛ لیكن ’’احمدُ قالَ كذا‘‘ كهه كر مخاطب كے بلید اور غبی هونے كی طرف اشاره كیا هے۔ ۲ -۱ بعض منافقین اور بعض اعراب (بدّو) صدقات وغنائم كی تقسیم كے وقت دنیوی حرص اور خود غرضی كی راه سے حضور كی نسبت زُبانِ طعن كھولتے تھے كه: تقسیم میں انصاف كا پهلو ملحوظ نهیں ركھا گیا! (حالاں كه رسول الله كی یه تقسیم تو حكم الٰهی سے حكمتوں پر مبنی هوتی تھی، رسول الله كی طرف سے نهیں هوتی؛ لهٰذا) بهتر طریقه یهی هے كه: جو كچھ خدا پیغمبر كے هاتھ دلوائے اس پر آدمی راضی وقانع هو اور صرف خدا پر توكل كرے اور وه سمجھے كه: وه چاهے گا تو آینده اپنے فضل سے بهت كچھ مرحمت فرمائے گا۔یهاں ان اعراب كی كج فهمی كو دور كرنے كے لیے ﴿حَسْبُنَا اللهُ، سَیُؤْتِیْنَا اللهُ مِنْ فَضْلِهِ﴾ میں دوباره الله مسندالیه كا تذكره فرمایا كه: ’’دینے والے رسول نهیں ؛ بلكه الله هے‘‘۔ نیز تسجیل علی السامع كی آیت میں ﴿مَاعَرَفُوْا﴾ بھی اسی قبیل سے هے۔ اسی طرح زید كے تذكره كے ضمن میں ’’ھو نِعْم الصَّدِیق‘‘ كے بجائے ’’زَیدٌ نِعْم الصدِیقُ‘‘ كهنا؛ اس مثال میں : اگر زید كا ذكر سابق میں هوچكا هو، البته اس ذكر پر تھوڑا سا وقت گذر گیا هو یا اس كے ساتھ هی كسی دوسرے شخص كا بھی ذكر كیا گیا هو؛ پھر بجائے ’’نعم الصدیق‘‘، كے یه كها جائے: ’’زید نعم الصدیق‘‘؛ ’’زید كیا هی اچھا دوست هے‘‘۔ ۲ -۲ مسند الیه كے علاوه كی مثال: ﴿أَلاَ إِنَّ ثَمُوْدَاْ كَفَرُوْا رَبَّهُمْ، أَلاَ بُعْدًا لِّثَمُوْدَ۶۸﴾ [ھود:۶۸]، یهاں قومِ هود كی عاقبت، ان كے بُرے انجام كو ظاهر كرنے كے لیے ثمودِ ثانی كو حذف نهیں كیا؛ اگرچه حذف پر ثمود اول قرینه موجود هے۔ ۳بھائیوں نے سخت متعجب وحیرت زده هوكر كها: ﴿ءَ إِنَّكَ لَــ’’أَنْتَ‘‘ یُوْسُفُ﴾، سچ بتاؤ! كیا تم هی یوسف هو؟اس آیت میں ’’أ إنك یوسف‘‘ بھی كهه سكتے تھے؛ لیكن تعجب كے اظهار كے لیے ﴿أنْتَ﴾ مسندالیه ثانی كو ذكر كیا۔