اجرائے بلاغت قرآنیہ مع بدیع القرآن |
ہ علم وک |
|
۸ تقدیم للتبرك: حصول بركت كےلیے مسند كو مقدم كرنا، جیسے: ﴿وَاعْلَمُوْآ أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ، فَأَنَّ ’’لِلهِ‘‘ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمیٰ وَالْمَسٰكِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ﴾۱ [أنفال:۴۱]. ۹ التفاؤل: نیك فالی حاصل كرنے كے لیے خبر كو مقدم كرنا، جیسے: فِيْ عَافِیَةٍ أَنْتَ إِنْ شَاءَ اللهُ؛ ’’سَعِدَتْ‘‘ بِغُرَّةِ وَجْهِكَ الْأَیَّامُ۲. ۱۰ كون المقدَّم محطّ السوال: مقدم هونے والے مسند كا محل سوال هونا، جیسے: ﴿أَ’’رَاغِبٌ‘‘ أَنْتَ عَنْ اٰلِهَتِيْ یٰٓإِبْرٰهِیْمُ﴾۳ [مریم:۴۶]. ۱۱ كون المقدَّم محطّ التعجُّب: مقدم هونے والے مسند كا محل تعجب هونا ظاهر كرنا،جیسے: ﴿كَیْفَ ’’یُحَكِّمُوْنَكَ‘‘ وَعِنْدَهُمُ التَّوْرٰةُ فِیْهَا حُكْمُ اللهِ﴾۴ [المائدة:۴۳] جس كی وه تمناكرے۔ یهاں ﴿لله﴾ مسند هے، ﴿الآخرة والأولیٰ﴾ مسند الیه هے، اور سجع كی رعایت میں مسند الیه كی تاخیر اور مسند كی تقدیم هوئی هے؛ کیوں کہ فواصل کا حرفِ روی ’’الف‘‘ ہے۔ فواصل اور روی کی تعریف ’’بدیع القرآن‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں ۔ ۱ یعنی جو مالِ غنیمت كافروں سے لڑ كر هاتھ آئے اس كا پانچواں حصه خدا كی نیاز هے اور اُسے تو مال كی ضرورت نهیں ، هاں ! خدا كی نیابت كے طور پر پیغمبر علیه السلام پانچ جگه خرچ كر سكتے هیں : اپنی ذات پر اور اپنے اُن قرابت داروں پر جنهوں نے اسلام كی خاطر یا محض قرابت كی وجه سے آپ ﷺكا ساتھ دیا، یتیموں پر، حاجت مند مسلمانوں پر، مسافروں پر؛ پھر خمس نکالنے کے بعد غنیمت میں جو چار حصے باقی رهے وه لشكر پر تقسیم كیے جائیں ۔ یهاں ﴿لله﴾ مسند كی تقدیم ﴿خمُسُه﴾ مسندالیه پر برائے تبرك هے۔ ۲ مثال اول: بیمار آدمی سے كها جائے: فِيْ عَافِیَةٍ أَنْتَ إِنْ شَاءَ اللهُ، عافیت سے هیں آپ؛ اس مثال میں فِيْ عَافِیَةٍ مسند كو مقدم كیا گیا هے تاكه یه فال لیا جائے كه آپ كو عافیت مل گئی هے۔ مثالِ ثانی: خوش حال ہوگیا زمانہ آپ کی پیشانی کی چمک (وجودِ بابرکت)سے۔ ۳باپ نے حضرت ابراهیم علیه السلام كی تقریر سن كر كها: معلوم هوتا هے كه: تُو همارے معبودوں سے بدعقیده هے! بس اپنی بے اعتقادی اور وعظ ونصیحت كو رهنے دے! ورنه تجھ كو كچھ اَور سُننا پڑے گا؛ بلكه میرے هاتھوں سے سنگسار هونا پڑے گا۔دیکھیے! یہاں محلِ سوال(راغب)کو مقدم کیا گیاہے۔ ۴یهود نه آپ پر ایمان ركھتے تھے اور نه هی قرآن پر ایمان ركھتے تھے، پھر تعجب كی بات هے كه آپ كو حَكَم ٹھهراتے هیں اور جس تورات كو وه خود آسمانی كتاب مانتے هیں اس كے فیصله پر بھی راضی نهیں ! تو حقیقت میں ان كا ایمان كسی پر بھی نهیں ! نه قرآن پر، نه تورات پر! یهاں تحكیم كو محل تعجب هونے كی وجه سے مقدم كیا هے۔ (صفوة التفاسیر)